کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 552
اگر ناشکری کروگے تو پھر میری سزا بھی بہت سخت ہے ۔ ‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گذار بندوں کو اور زیادہ نعمتوں سے نوازنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر موجودہ نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا جائے اور انہیں اس کی اطاعت میں کھپایا جائے تو نہ صرف وہ نعمتیں بحال رہتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ مزید نعمتیں عطا کرتا ہے اور اپنے شکرگذار بندوں کی زندگی کو خوشحال بنا دیتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ناشکری کرنے والوں کو سخت تنبیہ بھی کی ہے کہ وہ ان کی ناشکری کی بناء پر ان سے موجودہ نعمتوں کو چھین کر انہیں مصائب وآفات میں بھی مبتلا کر سکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَکاَنَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیْمًا﴾[1] ’’اگر تم لوگ ( اللہ کا ) شکر ادا کرو اور ( خلوص نیت سے ) ایمان لے آؤ تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمھیں عذاب دے ؟ جبکہ اللہ تو بڑا قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔ ‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندہ اگر سچا مومن اور اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہو تو اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ اسے آزمائش میں مبتلا نہیں کرتا ۔ بلکہ وہ تو قدر دان ہے اور اپنے بندوں کے جذباتِ تشکرکو دیکھ کر انہیں اور زیادہ عطا کرتا ہے ۔ یادر ہے کہ شکر دل اور زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی بجا لانا ضروری ہے ۔ اور سچا شاکر وہ ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ احسانات کرتا ہے تو وہ اس کی اور زیادہ اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہے ۔ اور وہ جتنا اسے اپنے فضل سے نوازتا ہے اتنا ہی اس کے جذباتِ محبت واطاعت اور جوش میں آتے ہیں اور وہ ہر طرح سے ان کے شکر کا اظہار کرنے لگتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا ۔ اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھاکہ اے اللہ کے رسول ! آپ کی تو اللہ تعالیٰ نے اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دی ہیں ، پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا )) [2] ’’ کیا میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گذار بندہ بنوں ؟ ‘‘ آٹھواں اصول : صبر دنیا میں سعادتمندی اور خوشحالی کے حصول کا آٹھواں اصول ہے : صبر ۔ یعنی کسی بندہ ٔ مومن کو جب کوئی
[1] النساء4 :147 [2] صحیح البخاری :4837،صحیح مسلم:2820