کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 544
اس نے تکبر کرتے ہوئے سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیا ۔ پھر نتیجہ کیا نکلا ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کیلئے ملعون قرار دے دیا ۔ یہ صرف ایک سجدہ چھوڑنے کی سزا تھی اور آج بہت سارے مسلمان کئی سجدے چھوڑ دیتے ہیں ، پانچ وقت کی فرض نمازوں میں من مانی کرتے ہیں ۔ تو کیا اس طرح ان کی زندگی کامرانیوں سے ہمکنار ہو سکے گی؟ ایں خیال است ومحال است بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج بہت سارے لوگ کئی برائیوں کو برائی ہی تصور نہیں کرتے اور بلا خوف وتردد ان کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ برائی کو برائی تسلیم نہ کرنا اللہ کی شریعت سے انکار کے مترادف ہے اور یہ ’ کفر ‘ ہے ۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سنجیدگی سے اپنا جائزہ لیں اور اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں ۔ جب ہم خود اپنی اصلاح کریں گے اور اپنا دامن اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچائیں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ بھی ہماری حالت پہ رحم فرمائے گا اور ہمیں خوشحال زندگی نصیب کرے گا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ تابعین کو مخاطب کرکے کہا کرتے تھے : ( إِنَّکُمْ لَتَعْمَلُوْنَ أَعْمَالًا ہِیَ أَدَقُّ فِیْ أَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعْرِ ، إِنْ کُنَّا لَنَعُدُّہَا عَلیٰ عَہْدِ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم مِنَ الْمُوْبِقَاتِ ) [1] ’’ آج تم ایسے ایسے عمل کرتے ہو جو تمھاری نگاہوں میں بال سے زیادہ باریک (بہت چھوٹے ) ہیں جبکہ ہم انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہلاک کرنے والے گناہوں میں شمار کرتے تھے ۔ ‘‘ یہ تابعین کے دور کی بات ہے جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کے بعد بہترین دور تھا ۔ اور آج ہمارے دور میں اللہ جانے کیا کچھ ہوتا ہے ، بس اللہ کی پناہ ! چوتھا اصول : تو بہ واستغفار انسان پر جو مصیبت آتی ہے چاہے جسمانی بیماری کی صورت میں ہو یا ذہنی اور روحانی اذیت کی شکل میں ، چاہے کاروباری پریشانی ہو یا خاندانی لڑائی جھگڑوں کا دکھ اور صدمہ ہو … ہر قسم کی مصیبت اس کے اپنے گناہوں کی وجہ سے آتی ہے ۔ اس لئے اسے ان سے نجات پانے کیلئے فورا سچی توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ازالہ کرکے انھیں خوشحال بنا دیتا ہے۔
[1] صحیح البخاری،الرقاق باب ما یتقی من محقرات الذنوب:6492