کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 543
اور فرمایا :﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مِنْ أَمْرِہٖ یُسْرًا﴾[1] ’’ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کیلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے ۔ ‘‘ نیز فرمایا:﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُریٰ آمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ﴾[2] ’’ اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ کی نافرمانی سے بچتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے ۔ ‘‘ ان تمام آیات میں خوشحالی اور کامیاب زندگی کے حصول کیلئے ایک عظیم اصول متعین کردیا گیا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے اجتناب کرنا کیونکہ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ بندہ ٔ مومن کیلئے ہر قسم کی پریشانی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے ، اس کے ہر ہر کام کو آسان کر دیتا ہے اور اوپر نیچے سے اس کیلئے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ اب آئیے ذرا اس اصول کی روشنی میں ہم اپنی حالت کا جائزہ لے لیں … ایک طرف تو ہم خوشحال اور کامیاب زندگی کی تمنا رکھتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ مثلا نمازوں میں سستی اور غفلت ، جھوٹ ، غیبت ، چغل خوری ، سودی لین دین ، والدین اور قرابت داروں سے بد سلوکی ، فلم بینی اور گانے سننا وغیرہ ۔۔۔ بھلا بتلائیے کیا ایسی حالت میں خوشحالی وسعادتمندی نصیب ہو سکتی ہے ؟ اور کیا اس طرح پریشانیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے ؟ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نافرمانیوں کی موجودگی میں خوشحالی کا نصیب ہونا تو دور کی بات ہے موجودہ نعمتوں کے چھن جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے ۔ اِس کی واضح دلیل حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حضرت حواء علیہا السلام کا قصہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جنت کی ہر نعمت وآسائش سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی، محض ایک چیز سے منع کردیا کہ تمھیں اس درخت کے قریب نہیں جاناہے ۔ لیکن شیطان کے ورغلانے پر جب انہوں نے اس درخت کو چکھا تو اللہ تعالیٰ نے جنت کی ساری نعمتوں سے محروم کرکے انہیں زمین پر اتار دیا اوران کی ایک غلطی جنت کی ساری نعمتوں سے محرومی کا سبب بن گئی ۔ توآج جبکہ ہم گناہ پر گناہ کئے جا رہے ہیں اور پھر بھی خوشحالی کے متمنی ہوتے ہیں ! یہ یقینی طور پر ہماری خام خیالی اورغلط فہمی ہے ۔ اگر ہم واقعتا ایک خوشحال زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے قطعی اجتناب کرنا ہو گا ۔ اسی طرح ابلیس کا قصہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا لیکن
[1] الطلاق65 :4 [2] الأعراف7:96