کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 538
جھوٹ بولتا ہو ، دھوکہ دہی اور بد دیانتی سے کام لیتا ہو اور حرام ذرائع سے کماتا ہو تو ایسے انسان کے متعلق ہمیں یقین کرلینا چاہئے کہ اسے لاکھ کوشش کے باوجود خوشگوار زندگی نصیب نہیں ہو سکتی ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمیٰ ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمیٰ وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا ٭ قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسیٰ﴾ [1]
’’ اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں یقینا تنگ حال رہے گا اور روزِ قیامت ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا ہے ؟ دنیا میں تو میں خوب دیکھنے والا تھا ۔ اللہ کہے گا : اسی طرح تمھارے پاس میری آیتیں آئی تھیں تو تم نے انہیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تم بھی بھلا دئے جاؤ گے۔ ‘‘
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ جو شخص میرے دین سے منہ موڑے گا اور میرے احکامات کی پروا نہیں کرے گا میں دنیا میں اس کی زندگی تنگ حال بنا دوں گا اور اسے خوشحال زندگی سے محروم کردونگا ۔ اس کے علاوہ قیامت کے دن میں اسے اندھا کرکے اٹھاؤں گا۔ وہ مجھ سے اس کی وجہ پوچھے گا تو میں کہوں گا : جیسا تم نے کیا آج ویسا ہی بدلہ تمھیں دیا جار ہا ہے ۔ تمھارے پاس میرے احکام آئے ، اہلِ علم نے تمھیں میری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائیں اور میرے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صحیح احادیث کو تمھارے سامنے رکھا لیکن تم نے ان سب کو پسِ پشت ڈال کر من مانی کی اور جو تمھارے جی میں آیا تم نے وہی کیا ۔ اسی طرح آج مجھے بھی تمھاری کوئی پروا نہیں ۔
اگر ہم واقعتا یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہمیں ایک باوقار اور خوشحال زندگی نصیب ہو تو ہمیں دین الہی کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا اور من مانی کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ہو گا … اور اللہ کا سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں اور اس میں کسی کو شریک نہ بنائیں ۔ صرف اسی کو پکاریں ، صرف اسی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھیں ، صرف اسی کو داتا ، مدد گار ، حاجت روا ، مشکل کشا اور غوث اعظم تصور کریں ۔ اگر ہم خالصتا اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے تو وہ یقینا ہمیں پاکیزہ اور خوشگوار زندگی نصیب کرے گا ۔ ورنہ وہ لوگ جو اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کے در پر جبینِ نیاز جھکاتے اور غیر اللہ کیلئے نذرو نیاز پیش کرتے ہیں ، غیر اللہ کو داتا ، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں اور انہی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں توانہیں در در کی ٹھوکریں ہی نصیب ہوتی ہیں اور ذلت وخواری کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔
[1] طہ20:126-124