کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 517
سے کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے والے کو بھی اس کی قربانی سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اور صدقہ وخیرات کرنے والے انسان کوبھی اس کا یہ عمل کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا بلکہ الٹا یہ اعمال جن کے کرنے والوں کی نیت میں اخلاص نہیں پایا جاتا تھا ان کیلئے وبال جان بن جائیں گے اور انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر سب سے پہلے جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ والعیاذباللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( إِنَّ أَخْوَفَ مَا أخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرْکُ الْأصْغَرُ،قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَمَا الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ ؟ قَالَ: الرِّیَائُ،یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِأصْحَابِ ذَلِکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا جَازَی النَّاسَ: اِذْہَبُوْا إِلَی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُرَاؤُوْنَ فِیْ الدُّنْیَا ، فَانْظُرُوْا ہَلْ تَجِدُوْنَ عِنْدَہُمْ جَزَائً ؟ [1])) ’’ بے شک مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف شرک اصغر کا ہے ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! شرک اصغر کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ریاکاری ، بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ اُس دن جبکہ بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا فرمائے گا : تم ان کے پاس چلے جاؤ جن کیلئے تم دنیا میں اپنے اعمال کے ذریعے ریا کاری کرتے تھے ۔ پھر دیکھو کہ کیا تمھیں ان کا کوئی بدلہ ملتا ہے ؟ ‘‘ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم سب غم والے کنویں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو ۔‘‘ صحابہ کرم رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! غم والا کنواں کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَادٍ فِیْ جَہَنَّمَ یَتَعَوَّذُ مِنْہُ جَہَنَّمُ کُلَّ یَوْمِ أَرْبَعَمِائَۃِ مَرَّۃ )) ’’ وہ جہنم کی ایک وادی ہے جس سے خود جہنم دن میں چار سو مرتبہ پناہ طلب کرتی ہے ۔‘‘ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : اس میں کون داخل ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أُعِدَّ لِلْقُرَّائِ الْمُرَائِیْنَ بِأَعْمَالِہِمْ،وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْقُرَّائِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالَی الَّذِیْنَ یَزُوْرُوْنَ الْأُمَرَائَ)) [2] ’’ اسے ان قراء کیلئے تیار کیا گیا ہے جو اپنے اعمال سے ریاکاری کی نیت کرتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک
[1] أحمد:429/5،وقال الہیثمی : رجالہ رجال الصحیح:مجمع الزوائد:102/1، الصحیحۃ للألبانی:951 [2] سنن الترمذی :2383،سنن ابن ماجہ :256۔ واللفظ لہ