کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 504
’’ کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم اہل جنت کا تیسراحصہ ہو گے ؟‘‘ حضرت عبد اللہ کہتے ہیں : ہم نے ( خوشی کے مارے ) پھر اللہ اکبر کہا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنِّیْ لَأرْجُوْ أَنْ تَکُوْنُوْا شَطْرَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ )) ’’ میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ تم اہلِ جنت کا آدھا حصہ ہو گے۔ ‘‘ میں تمھیں عنقریب اس کے بارے میں خبر دوں گا ، مسلمان کافروں کے مقابلے میں ایسے ہونگے جیسے ایک سیاہ رنگ کے بیل پر ایک سفید رنگ کا بال ہو ۔ یا ( آپ نے فرمایا : ) جیسے سفید رنگ کے بیل پر ایک سیاہ رنگ کا بال ہو ۔ ‘‘[1] (۱۹) جنت میں داخل ہونے والاسب سے آخری شخص حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخر ی شخص وہ ہو گا جو اس حالت میں آئے گا کہ کبھی چلے گا اور کبھی گر پڑے گا ۔ کبھی آگ اسے تھپیڑے مارے گی اورجب وہ اسے ( آگ کو) عبور کر جائے گا تو پیچھے مڑ کر دیکھے گا اور کہے گا : بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی ہے ۔ یقینا اللہ نے مجھے وہ چیز عطا کردی ہے جو اس نے پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں کی ۔ پھر ایک درخت اس کے سامنے بلند کیا جائے گا تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں چلا جاؤں اور اس کے (قریب بہتے ہوئے ) پانی سے پیاس بجھا سکوں ۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : اے ابنِ آدم ! اگر میں تیرا یہ سوال پورا کردوں تو شاید تو پھر کوئی اور سوال بھی کرے گا ؟ وہ کہے گا : نہیں اے میرے رب ۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے گا کہ وہ کوئی اور سوال نہیں کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ بھی اسے معذور سمجھے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز کو دیکھ رہا ہو گا جس سے صبر کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردے گا ۔ تو وہ اس کے سائے میں چلا جائے گا اور اس کے پانی سے پیاس بجھائے گا ۔ پھر ایک اور درخت اس کے سامنے بلند کیا جائے گا جو پہلے درخت سے زیادہ اچھا ہو گا ۔ وہ کہے گا:اے
[1] صحیح البخاری:6528،صحیح مسلم۔کتاب الإیمان باب کون ہذہ الأمۃ نصف أہل الجنۃ: 221۔واللفظ لمسلم