کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 483
ہے۔ وہ کہیں گے:اے ہمارے رب ! اس سے اچھی چیز کیا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میری رضا ۔ جاؤ میں اب تم پر کبھی ناراض نہیں ہونگا۔ ‘‘[1]
شفاعت کی شروط
روزِ قیامت شفاعت دو شرطوں کے ساتھ مشروط ہے:
1۔پہلی شرط اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کرسکے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہٖ﴾ [2]
’’ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے ؟ ‘‘
اسی طرح فرمایا :﴿وَکَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِیْ السَّمٰوَاتِ لاَ تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا إِلاَّ مِنْ بَعْدِ أَنْ یَّأْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَائُ وَیَرْضٰی﴾[3]
’’ اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ایسے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور چاہت سے جس کیلئے چاہے اجازت دے دے ۔ ‘‘
2۔دوسری شرط یہ ہے کہ جس شخص سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گا اسی کے بارے میں ہی شفاعت کرنے والے شفاعت کر سکیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَلاَ یَشْفَعُوْنَ إِلاَّ لِمَنِ ارْتَضٰی﴾[4]
’’ اور وہ صرف اسی کیلئے شفاعت کریں گے جس سے وہ راضی ہوگا ۔ ‘‘
ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان وموحدین ہی سے راضی ہوتا ہے ، کفار ومشرکین سے نہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے ۔ آمین
[1] صحیح البخاری : 7439، صحیح مسلم :183 واللفظ لہ
[2] البقرۃ2 : 255
[3] النجم53 :26
[4] الأنبیاء21 :28