کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 466
سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا : (( لَا یَسْمَعُہُ جِنٌّ وَّلَا إِنْسٌ وَّلَا شَجَرٌ وَّلَا حَجَرٌ إِلَّا شَہِدَ لَہُ[1])) ’’ جو جن ، جو انسان اور جو درخت اورجو پتھر اذان سنتا ہے وہ مؤذن کے حق میں گواہی دے گا ۔‘‘ لہٰذا مسلمان بھائیو ! ذرا سوچو ہمارے ہر ہر عمل کے متعلق گواہ موجود ہیں جو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں گواہی دیں گے۔ اور سب سے بڑا گواہ خود اللہ رب العزت ہے جس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ انبیاء علیہم السلام سے اللہ کا سوال …اور اس امت کی ان کے حق میں گواہی حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ قیامت کے دن ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ صرف ایک آدمی ہو گا ، دوسرا نبی آئے گا اور اس کے ساتھ صرف دو آدمی ہو نگے اور ایک اور نبی آئے گا اور اس کے ساتھ صرف تین افراد ہو نگے ۔ اسی طرح اور انبیاء آئیں گے اور ان کے ساتھ اس سے زیادہ افراد ہو نگے یا کم ۔ چنانچہ ہر نبی سے کہا جائے گا : کیا تم نے اپنی قوم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ جواب دے گا : جی ہاں ۔ پھر اس کی قوم کو بلایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا : کیا اس نے تمھیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے : نہیں۔ تو نبی سے کہا جائے گا : تمھارا گواہ کون ہے ؟ وہ کہے گا : محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) او ران کی امت ۔ پھر امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا کہ کیا اس نبی نے اپنی قوم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے : جی ہاں اللہ تعالیٰ کہے گا : تمھیں اس بات کا کیسے پتہ چلا ؟ وہ کہیں گے : ہمیں ہمارے نبی نے اس بات کی خبر دی تھی کہ ان سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم تک اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا ۔ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا﴾ ’’ ہم نے اسی طرح تمھیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پرگواہ ہو جاؤ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں ۔ ‘‘[2]
[1] سنن ابن ماجہ:723۔ وصححہ الألبانی [2] سنن ابن ماجہ:4284۔ وصححہ الألبانی