کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 456
عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَہِیَ مَسْؤُوْلَۃٌ عَنْہُ ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہٖ وَہُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْہُ ، أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَمَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہ [1])) ’’ خبردار ! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔ پس جس شخص کو لوگوں کا امیر (حکمران ) بنایا گیا اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔ اور مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہوتا ہے تو اس سے بھی ان کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔ اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہوتی ہے سو اس سے بھی اس کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی ۔ اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لئے اس سے بھی اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ خبرا دار ! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا۔ ‘‘ سوال کس چیز کے متعلق ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ﴾[2] ’’ پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کے متعلق سوال ہو گا ۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں اور ان کے متعلق سوال سے مراد یہ ہے کہ انسان سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا میں کھپایا تھا یا انہیں اس کی نافرمانی میں ضائع کردیا تھا ؟ اور جس نے تمہیں یہ نعمتیں عطا کی تھیں تم نے اسی کے حکم کے مطابق زندگی بسر کی تھی یا من مانی کی تھی ؟ اور کیا تم نے ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی اطاعت کی تھی یا اس کی معصیت ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( إِنَّ أَوَّلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنَ النَّعِیْمِ أَنْ یُّقَالَ لَہُ : أَلَمْ نُصِحَّ لَکَ جِسْمَکَ؟ وَنُرْوِیْکَ مِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ[3])) ’’ بے شک بندے سے قیامت کے دن نعمتوں میں سے سب سے پہلے اس نعمت کا سوال کیا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں تندرستی نہیں دی تھی ؟ اور کیا ہم نے تمہیں ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا ؟ ‘‘ اورحضرت ابو برزہ الأسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا تَزُوْلُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ،وَعَنْ عِلْمِہٖ فِیْمَ
[1] صحیح البخاری :2554 و5188و5200 و893، صحیح مسلم :1829 [2] التکاثر102:8 [3] سنن الترمذی :3358 ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع الصغیر:2022