کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 452
امت اپنے نبی کے پیچھے جائے گی اور کہے گی : اے فلاں ! شفاعت کریں ، اے فلاں ! سفارش کریں یہاں تک کہ شفاعت کیلئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا ۔ اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا ۔‘‘[1]
یومِ قیامت ۔۔۔۔ پیشی کا دن ہے
یعنی اُس دن لوگوں پر ان کے اعمال پیش کئے جائیں گے جیسا کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ قیامت کے دن جس شخص کا حساب ہو گا اسے عذاب دیا جائے گا ۔ ‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اے اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا:﴿فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا﴾ یعنی اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس سے مراد حساب نہیں بلکہ اس سے مراد (عرض ) یعنی پیش کیا جانا ہے اور جس سے حساب وکتاب کے دوران پوچھ گچھ کی جائے گی اسے عذاب دیا جائے گا ۔ ‘‘[2]
اور حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( یُعْرَضُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثَلَاثَ عُرْضَاتٍ:فَأَمَّا عُرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِیْرُ،وَأَمَّا الثَّالِثَۃُ فَعِنْدَ ذٰلِکَ تَطِیْرُ الصُّحُفُ فِیْ الْأیْدِیْ فَآخِذٌ بِیَمِیْنِہٖ وَآخِذٌ بِشِمَالِہٖ [3]))
’’ لوگوں کو قیامت کے دن تین طرح سے پیش کیا جائے گا ۔ پہلی دو پیشیوں میں مباحثہ ہو گا اور حجت قائم کی جائے گی جبکہ تیسری پیشی کے بعدہاتھوں میں اعمال نامے پکڑائے جائیں گے ۔ کوئی اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے گا اور کوئی بائیں ہاتھ سے ۔ ‘‘
الحکیم الترمذی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ جھگڑے سے مراد یہ ہے کہ خواہش پرستی کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کریں گے کیونکہ وہ اپنے رب کو نہیں پہچانتے ہو نگے اور وہ یہ گمان کر بیٹھیں گے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کریں گے تو اس طرح ان کی جان چھوٹ جائے گی اور ان کی حجت کوقبول کر لیا جائے گا ۔ اور
[1] صحیح البخاری:4718
[2] صحیح البخاری:103و4939، صحیح مسلم : 2876
[3] سنن الترمذی:2425،سنن ابن ماجہ:4277،مسند أحمد:414/4۔وقال الترمذی:ولا یصح ہذاا لحدیث من قبل أن الحسن لم یسمع من أبی ہریرۃ۔وقال الحافظ فی الفتح: 403/11:وأخرجہ البیہقی فی البعث بسند حسن عن عبد اللّٰه بن مسعود موقوفا