کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 445
الْأَقْرَبِیْنَ﴾ ’’ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ ۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے قریش کی جماعت ! تم اپنی جانوں کا سودا خود کر لو ( اپنے انجام کی فکر کرلو ) میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔ اے بنو عبد مناف ! میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔ اے عباس بن عبد المطلب !میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔ اے صفیہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی) ! میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔ اور اے فاطمۃ بنت محمد ! میرے مال سے جو چاہو مانگ لو (لیکن اس بات پر یقین کر لو کہ ) میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا ۔‘‘[1] اس حدیث کی روشنی میں غور فرمائیں کہ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز اپنے عزیزوں حتی کہ اپنی پھوپھی اور اپنی لخت جگر کے کام نہیں آئیں گے تو اس دن اور کو ن کسی کے کام آ سکے گا ! کیا یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں کہ اس دن انسان کا نجات دہندہ محض اس کا عملِ صالح ہی ہو گا ؟ لہذا ہمیں عملِ صالح ہی کرنا چاہئے اور عملِ بد سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اور ہاں ! اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امید وار بھی ہونا چاہئے اور اسکے ساتھ ہمیں حسن ِ ظن ہونا چاہئے کہ وہ معاف کرنے والا ہے اور رحیم وکریم ہے ۔ روزِ قیامت کا پسینہ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے:(( تُدْنَی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْہُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ ۔ قَالَ سلیم بن عامر:مَا أَدْرِیْ مَا یَعْنِیْ بِالْمِیْلِ، أَمَسَافَۃَ الْأَرْضِ أَوِ الْمِیْلَ الَّذِیْ تُکْحَلُ بِہِ الْعَیْنُ ۔ قَالَ: فَیَکُوْنُ النَّاسُ عَلَی قَدْرِ أَعْمَالِہِمْ فِیْ الْعَرَقِ ، فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّکُوْنُ إِلٰی کَعْبَیْہِ،وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّکُوْنُ إِلٰی رُکْبَتَیْہِ ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّکُوْنُ إِلٰی حِقْوَیْہِ،وَمِنْہُمْ مَّنْ یُلْجِمُہُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا،قَالَ: وَأَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم بِیَدِہٖ إِلٰی فِیْہِ)) [2] ’’ قیامت کے روز سورج کو مخلوق سے قریب کردیا جائے گا حتی کہ وہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر رہ جائے گا (سلیم بن عامر کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ میل سے مراد زمین کی مسافت ہے یا اس سے مراد وہ میل (سلائی) ہے جس کے ذریعہ آنکھ میں سرمہ لگایا جاتا ہے ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کے مطابق پسینے میں ہو گا ۔ ان میں سے کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں تک ہو گا ، کسی کا پسینہ اس کے گھٹنوں
[1] صحیح البخاری:4771 [2] صحیح مسلم:2864