کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 443
’’ جیسا کہ ہم نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم اسے دورباہ لوٹائیں کے ۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خبردار ! قیامت کے روز لوگوں میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا ۔ اور خبردار ! میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا ، پھر انھیں بائیں طرف لے جایا جائے گا ۔ میں کہوں گا : اے میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آپ کو نہیں معلوم کہ انھوں نے آپ کے بعد ( دین میں ) کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کی تھیں ۔
چنانچہ میں بالکل اسی طرح کہوں گا جیسا کہ نیک بندے (حضرت عیسی علیہ السلام ) نے کہا تھا:﴿وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ وَأَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ. إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ [1]
’’ میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا ، پھر جب تو نے مجھے فوت کردیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے ۔ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب ہے اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘
تو کہا جائے گا : جب سے آپ ان سے جدا ہوئے انھوں نے دین سے منہ موڑ لیا تھا اور وہ مرتد ہو گئے تھے۔‘‘[2]
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
(( یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا ، قُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اَلرِّجَالُ وَالنِّسَائُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ؟ قَالَ : یَا عَائِشَۃُ ! اَلْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یَنْظُرَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ))
’’ قیامت کے دن لوگوں کوننگے پاؤں ، ننگے بدن اور غیر مختون حالت میں جمع کیا جائے گا ۔‘‘
میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مرداور عورتیں سب اکٹھے ہونگے اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہو نگے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ’’ اے عائشہ ! اس روز کا معاملہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے کہیں زیادہ سخت ہو گا ۔ ‘‘[3]
[1] المائدۃ5:118-117
[2] صحیح البخاری 3349و3447و4625،صحیح مسلم :2860
[3] صحیح البخاری :6527، صحیح مسلم :2859