کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 441
ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں پہلے گروہ سے مراد نیکو کار لوگوں کا گروہ ، دوسرے گروہ سے مرادوہ لوگ ہوں جنھوں نے نیکیاں بھی کی ہو نگی اور برائیاں بھی اور تیسرے گروہ سے مراد کفار کا گروہ ہو ۔ واللہ اعلم
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! کافروں کو ان کے چہروں کے بل کیسے جمع کیا جائے گا ؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَلَیْسَ الَّذِیْ أَمْشَاہُ عَلٰی رِجْلَیْہِ فِیْ الدُّنْیَا قَادِرًا عَلٰی أَنْ یُّمْشِیَہُ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ؟)) [1]
’’ کیا وہ ذات جس نے اسے دنیا میں پاؤں کے بل چلایا وہ اسے قیامت کے روز چہرے کے بل چلانے پر قادر نہیں ؟ ‘‘
اٹھنے کے بعد لوگ کس حال میں ہونگے ؟
جب کافروں کو ان کی قبروں سے حشر کیلئے اٹھایا جائے گا تو ان کی پانچ حالتیں ہو نگی :
1۔ قبروں سے اٹھتے ہوئے : مکمل حواس اور اعضاء کے ساتھ اٹھیں گے ۔
2۔ حساب وکتاب کیلئے جاتے ہوئے : مکمل حواس اور اعضاء کے ساتھ جائیں گے ۔
3۔ حساب وکتاب کے دوران : مکمل حواس اور اعضاء کے ساتھ ہوں گے ۔
تاہم ان تینوں حالات میں سے کسی ایک یا دو یا ( ہو سکتا ہے کہ ) تینوں میں وہ بصارت سے محروم ہوں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا. وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمیٰ . قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمیٰ وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا. قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسیٰ﴾[2]
’’ اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں یقینا تنگ حال رہے گا اور روزِ قیامت ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا ہے ؟ دنیا میں تو میں خوب دیکھنے والا تھا ۔ اللہ کہے گا : اسی طرح تمھارے پاس میری آیتیں آئی تھیں تو تم نے انہیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تم بھی بھلا دئے جاؤ گے۔ ‘‘
4۔ جہنم کی طرف جاتے ہوئے : ان کی سماعت ، بصارت اور قوتِ گویائی کو سلب کرلیا جائے گا ۔ یعنی وہ
[1] صحیح البخاری:4760و6523، صحیح مسلم:2806
[2] طہ20 : 126-124