کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 431
اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ أُخْرٰی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ﴾[1]
’’ اور صور پھونک دیا جائے گا ، پھر آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے ، مگر جسے اللہ چاہے ، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے ۔ ‘‘
( إلا من شاء اللّٰه ) سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ بے ہوش ہو کر گرنے سے مستثنی کرے گا۔ وہ کون لوگ ہونگے ؟ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ، ان میں سے ایک مسلمان اور دوسرا یہودی تھا ۔ چنانچہ مسلمان نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ۔ اس کے جواب میں یہودی نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے موسی ( علیہ السلام ) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ۔ یہ سن کر مسلمان غضبناک ہو گیا اور اس نے یہودی کے چہرے پر ایک تھپڑرسید کردیا ۔ چنانچہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے مسلمان کی شکایت کی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَا تُخَیِّرُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی، فَإِنَّ النَّاسَ یَصْعَقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَأَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ، فَإِذَا مُوْسٰی بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِیْ أَکَانَ مُوْسٰی فِیْمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِیْ ، أَوْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ [2]))
’’ تم مجھے موسی ( علیہ السلام ) پر فضیلت نہ دو کیونکہ قیامت کے روز لوگ بے ہوش کر گر پڑیں گے۔ چنانچہ میں سب سے پہلا شخص ہو نگا جسے افاقہ ہو گا۔اور میں دیکھوں گا کہ موسی ( علیہ السلام ) عرش کے ایک کنارہ کو پکڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ بھی بے ہوش ہونے والوں میں ہونگے اور مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہو گا یا انہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں میں شامل کرے گا جو بے ہوش کر گرنے سے مستثنی ہونگے۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَإِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ. وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً . فَیَوْمَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ. وَانشَقَّتِ السَّمَائُ فَہِیَ یَوْمَئِذٍ وَّاہِیَۃٌ. وَالْمَلَکُ عَلَی أَرْجَائِہَا وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَۃٌ﴾[3]
’’ جب صور میں ایک پھونک ماری جائے گی ۔ زمین اور پہاڑ اوپر اٹھا لئے جائیں گے اور یکبارگی ٹکرا کر ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے ۔ اُس دن واقع ہونے والی ( قیامت ) واقع ہو جائے گی ۔ آسمان پھٹ جائے گا ،
[1] الزمر39:68
[2] صحیح البخاری:6517، صحیح مسلم:2373
[3] الحاقۃ69 :17-13