کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 419
اسے لپیٹ سکیں گے ۔ اور قیامت یقیناقائم ہو گی ( اور اس قدر آنا فانا قائم ہوگی کہ ) اس وقت ایک آدمی اپنی دودھ دینے والی اونٹنی کا دودھ نکال چکا ہو گالیکن اسے اس کو پینے کی مہلت نہیں ملے گی ۔ اور ایک آدمی اپنے حوض کو پلستر کر چکا ہو گا لیکن وہ اس سے پانی نہیں پلا سکے گا ۔ اور ایک آدمی اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھا چکا ہو گا لیکن وہ اسے کھا نہیں سکے گا۔ ‘‘[1]
آگ کا نکلنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَخْرُجَ نَارٌ مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ،تُضِیْئُ أَعْنَاقَ الْإِبِلِ بِبُصْرٰی)) [2]
’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سرزمینِ حجاز سے ایک آگ نمودار ہو گی جس سے بصری میں(ملک شام میں ایک شہر کا نام ہے)اونٹوں کی گردنیں چمک اٹھیں گی ۔ ‘‘
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام قرطبی اور دیگر کئی علماء سے نقل کیا ہے کہ یہ آگ ۶۵۴ ھ میں مدینہ منورہ کے مشرق سے رو نما ہوئی تھی اور یہ بہت بڑی آگ تھی جسے مکہ مکرمہ اور بصری سے دیکھا گیا۔[3]
ربانی علماء کی موت
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْزِعُ الْعِلْمَ بَعْدَ أَنْ أَعْطَاکُمُوْہُ انْتِزَاعًا،وَلٰکِنْ یَنْتَزِعُہُ مِنْہُمْ مَعْ قَبْضِ الْعُلَمَائِ بِعِلْمِہِمْ،حَتّٰی إِذَا لَمْ یَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوْسًا جُہَّالًا ، فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا[4]))
’’ بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں علم عطا کرنے کے بعد تم سے اسے ایک دم نہیں چھین لے گا بلکہ علماء کو ان کے علم سمیت قبض کرکے چھین لے گا حتی کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو ( دینی ) پیشوا بنا لیں گے۔ لہٰذاان سے جب سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے ۔ یوں وہ خود بھی گمراہ ہو ں گے اور دوسروں کو
[1] صحیح البخاری :الفتن :7121
[2] صحیح البخاری :7118،صحیح مسلم :2902
[3] فتح الباری ، کتاب الفتن باب خروج النار:98/13
[4] صحیح البخاری:100و7307، صحیح مسلم:2673