کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 418
2۔ تیس کے قریب دجال آئیں گے جن میں سے ہر ایک کا دعوی یہ ہو گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔
3۔ علم اٹھالیا جائے گا ( علم صرف نام کا رہ جائے گااور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔)
4۔ زلزلے زیادہ آئیں گے ۔
5۔ وقت متقارب ہو جائے گا ( تقارب سے مراد یہ ہے کہ لوگوں میں بگاڑ جلدی پھیلنے لگے گا ۔ مثلا جس بگاڑ اور خرابی کے پھیلنے میں پہلے ایک سال لگتا تھا قیامت کے قریب وہ خرابی ایک ماہ میں پھیل جائے گی ۔ اور جس کے پھیلنے پر ایک ماہ لگتا تھا قیامت کے قریب چند گھڑیوں میں پھیل جائے گی جیساکہ آج کل میڈیا اتنی ترقی کر چکا ہے کہ گھر گھر میں دنیا بھر کے ٹی وی چینلز تک رسائی ممکن ہو چکی ہے اور ان کے ذریعے پل پل کی خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔اِس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وقت تنگ ہو جائے گا اور اس کی برکت ختم ہو جائے گی۔)
6۔ فتنوں کا ظہور ہو گا ۔
7۔ قتل عام ہو جائے گا ۔ (یہ علامت عصرِ حاضر میں موجود ہے ۔ چنانچہ بنی آدم ‘ خاص طور پر مسلمانوں کا خون اس قدر ارزاں ہے کہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ افغانستان ، فلسطین ، کشمیر اور عراق وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں ، واللہ المستعان)
8۔ مال بہت زیادہ ہو جائے گا حتی کہ صاحبِ مال صدقہ دینے کی خاطر مستحق کی تلاش میں سرگرداں ہو گا ۔ پھر جب کسی کو صدقہ پیش کرے گا تو وہ کہے گا : مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔
9۔ لوگ عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے ۔
10۔ ایک آدمی دوسرے آدمی کی قبر سے گذرے گا تو کہے گا : کاش ! میں اس کی جگہ پر ہوتا ۔
11۔ سورج مغرب سے طلوع ہو گا ۔ اور جب ایسا ہو گا اور تمام لوگ اسے دیکھ لیں گے تو وہ سب ایمان لے آئیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِیْ إِیْمَانِہَا خَیْرًا﴾ [1]
’’ اس وقت کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا تھا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا تھا ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ قیامت ضرور بالضرور قائم ہو گی ( اور اس کی شدت اور ہولناکی کی وجہ سے) اس وقت دو آدمی ایک کپڑا کھول چکے ہوں گے لیکن وہ اس کی خرید وفروخت نہیں کر پائیں گے اور نہ ہی
[1] الأنعام6 :158