کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 408
اسے جنت کا لباس پہنا دو اور اس کیلئے جنت کا ایک دروازہ کھول دو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :چنانچہ اس کے پاس جنت کی خوشبو اور اس کی نعمتیں آتی ہیں اور اس کی قبر کو حد نگاہ تک وسیع کر دیا جاتا ہے ۔ پھر اس کے پاس ایک خوبصورت شخص آتا ہے جس کا لباس انتہائی عمدہ ہوتا ہے اور اس سے بہت اچھی خوشبو پھوٹ رہی ہوتی ہے ۔ وہ کہتا ہے : تمھیں اللہ کی رضا اور ان جنات کی خوشخبری ہو جن میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں ۔ اوریہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ تو وہ کہتا ہے : اور تمھیں بھی اللہ خیرکی خوشبری دے ، تم کون ہو ؟ تمھارا چہرہ تووہ چہرہ ہے جو خیر ہی کو لاتا ہے ۔ وہ جواب دیتا ہے : میں تمھارا نیک عمل ہوں اورا للہ کی قسم ! تمھیں میں نے ہمیشہ اس حالت میں دیکھا کہ تم نیکی کے کام میں جلدی کیا کرتے تھے اور اللہ کی نافرمانی میں بہت دیر لگاتے تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ تمھیں جزائے خیر دے ۔ پھر اس کیلئے ایک دروازہ جنت کی طرف اور ایک دروازہ جہنم کی طرف کھولا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے :اگر تم اللہ کے نافرمان ہوتے تو یہ جہنم تمھار ا ٹھکانا ہوتی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس کے بدلے میں جنت کا یہ ٹھکانا دے دیا ہے۔ تو وہ جنت کی نعمتوں کو دیکھ کر کہتا ہے : اے میرے رب ! قیامت جلدی قائم کر تاکہ میں اپنے گھر والوں اور مال میں لوٹ جاؤں ۔ تو اسے جواب دیا جاتا ہے : اب تم کو یہیں رہنا ہے ۔ ۔۔۔‘‘[1] اس حدیث میں دیگر باتوں کے علاوہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ قبر میں مومن اورنیک انسان کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے اور اس کیلئے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔ پھر اسے جنت کا بستر اور جنت کا لباس مہیا کیا جاتا ہے اور اس کی قبر کو کھلا کر دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بے شک میت کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے ، بے شک وہ ان کے جوتوں کی آواز کو سن رہا ہوتا ہے جبکہ وہ اسے دفنانے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔ اور اگر وہ مومن ہو تو نماز اس کے سر کے پاس آجاتی ہے ، روزے اس کی دائیں جانب ، زکاۃ اس کی بائیں جانب اور دوسری نیکیاں مثلا صدقات ، نفل نماز اورلوگوں پر احسان وغیرہ اس کے پاؤں کے پاس آجاتی ہیں ۔ تو اس کے چاروں اطراف سے اسے نیکیاں گھیر لیتی ہیں اور اس کے پاس کسی چیز کو آنے نہیں دیتیں ۔ پھر اسے کہا جاتا ہے : بیٹھ جاؤ ۔ تو وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے ۔ اُس کے سامنے سورج آتا ہے اور وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے سورج غروب ہی ہونے والا ہے۔ تو اس سے پوچھا جاتا ہے : جو شخص تمھاری طرف مبعوث کیا گیاتھا ، تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ اور اس کے
[1] سنن أبی داؤد :4753،احمد:17803۔ وصححہ الألبانی فی احکام الجنائز:ص156