کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 403
پھر وہ کہتے ہیں : وہ آدمی کون ہے جسے تم میں نبی بنا کر بھیجا گیا ؟ تواسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام یاد نہیں آتا ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ؟ وہ کہتا ہے : ہائے مصیبت ، ہائے مصیبت میں نہیں جانتا ۔ میں نے لوگوں سے سنا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے تھے ۔ تو کہا جاتا ہے : تم نے نہ معلوم کیا اور نہ قرآن پڑھا ۔ پھر آسمان سے ایک نداء آتی ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے ۔ لہٰذا اس کیلئے جہنم کا بستر بچھا دو اور اس کیلئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چنانچہ اسے جہنم کی بد بو اور گرم ہوا آتی ہے اور اس کی قبر کو اتنا تنگ کردیا جاتا ہے کہ اس کی دونوں طرف کی پسلیاں باہم مل جاتی ہیں ۔ اس کے پاس ایک بدصورت شخص آتا ہے جس کا لباس انتہائی بد نما ہوتا ہے اور اس سے بہت گندی بد بو پھوٹ رہی ہوتی ہے ۔ وہ کہتا ہے : تمھیں اس چیزکی خوشخبری ہو جو تمھارے لئے بری ہے ۔ یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ تو وہ کہتا ہے : اور تمھیں بھی اللہ تعالیٰ بدی ہی کی خوشبری دے ۔ تم کون ہو ؟ تمھارا چہرہ تووہ چہرہ ہے جو شر ہی کو لاتا ہے ۔ وہ جواب دیتا ہے : میں تمھارا برا عمل ہوں اورا للہ کی قسم ہے میں نے تمھیں ہمیشہ اس حالت میں دیکھا کہ تم نیکی کے کام میں دیر کیا کرتے تھے اور اللہ کی نافرمانی بہت جلدی کرتے تھے ۔ سو اللہ تعالیٰ تمھیں برا بدلہ دے ۔ پھر اس پر ایک اندھے ، بہرے اور گونگے کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے جس کے ہاتھ میں ایک لوہے کی سلاخ ہوتی ہے ۔ اگر وہ اسے ایک پہاڑ پر مارے تو وہ مٹی ہو جائے ۔پھر وہ اس کے ساتھ اسے مارتا ہے یہاں تک کہ وہ مٹی ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے پہلی حالت میں کر دیتا ہے ۔ وہ پھر اسے اس کے ساتھ مارتا ہے جس سے وہ ایسی چیخ مارتا ہے کہ جسے جن وانس کے سوا کائنات کی ہر چیز سنتی ہے ۔ بعد ازاں اس کیلئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور جہنم ہی کا ایک بستر اس کیلئے بچھا دیا جاتا ہے ۔ تو وہ دعا کرتا ہے:اے میرے رب ! قیامت قائم نہ کر ۔ ‘‘[1] 8۔زمین میں دھنسنا عذابِ قبر کی ایک شکل یہ ہے کہ میت کو زمین میں دھنسایا جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ إِزَارَہُ مِنَ الْخُیَلَائِ خُسِفَ بِہٖ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ فِیْ الْأرْضِ إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ)) [2]
[1] سنن أبی داؤد:4753،أحمد:17803۔صححہ الألبانی فی أحکام الجنائز : ص 156 [2] صحیح البخاری:5343، صحیح مسلم :3894