کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 397
2۔کسی میت کے بارے میں یہ معلوم ہو جانا کہ اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے اس میں اس کی ذلت ورسوائی ہے ، کیونکہ اس کی زندگی میں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں پرپردہ ڈالے رکھا اور ہمیں ان کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ چلا ۔ اب اس کے مرنے کے بعد اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اسے تو عذاب دیا جا رہا ہے تو اس میں یقینا اس کی رسوائی ہو گی۔ 3۔قبروں میں مردوں کو دیئے جانے والے عذاب کے متعلق زندوں کو بے خبر رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر زندوں کو وہ عذاب دکھایا یا سنایا جاتا تو شاید وہ اپنے مردوں کو دفنانا چھوڑ دیتے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( لَوْ لَا أَنْ لَّا تَدَافَنُوْا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ [1])) ’’ اگر اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفنانا چھوڑ دوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمھیں عذابِ قبر میں سے تھوڑا سا سنادے ۔ ‘‘ گویا اس اندیشے کے پیشِ نظر کہ کہیں زندہ لوگ مردوں کو دفنانا چھوڑ نہ دیں عذابِ قبر کو مخفی اور غیبی امور میں رکھا گیا ہے ۔ واللہ اعلم عذابِ قبر برحق ہے اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ قبر میں صالح مومن کو جنت کی نعمتیں عطا کی جاتی ہیں اور فاسق وفاجر اور کافر ومنافق کو قبر میں عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ قرآن وحدیث میں اس کے متعدد دلائل موجود ہیں ۔ ان میں سے چند دلائل پیش خدمت ہیں: 1۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾[2] ’’ آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح وشام لائے جاتے ہیں ۔ اور جس دن قیامت قائم ہو گی (فرمان ہو گا کہ ) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں ڈال دو ۔‘‘ اس آیت میں دو عذابوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ایک قیامت سے پہلے اور دوسرا قیامت کے روز ۔ تو قیامت سے پہلے جس عذاب میں انہیں مبتلا کیا جاتا ہے اس سے یقینی طور پر عذابِ برزخ ہی مراد ہے ۔ اس آیت کی تفسیر
[1] صحیح مسلم :2868 [2] المؤمن40:46