کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 396
’’ میرے بھائیو ! اس طرح کے دن کیلئے تم بھی تیاری کر لو ۔ ‘‘ اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ تدفین ِ میت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے قریب بیٹھے ہوئے رو رہے تھے اورآپ اس قدر شدید روئے کہ آپ کے آنسوؤں سے زمین تر ہو گئی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ قبر مقامِ عبرت ہے ۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار قبرستان میں جایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی یہی حکم دیا ہے کہ وہ قبرستان میں جایا کرے ، کیونکہ اس سے آخرت یاد آتی ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ’’ اس طرح کے دن کیلئے تم بھی تیاری کر لو ‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں قبر کی زندگی کیلئے تیاری کرنی چاہئے اور اس کیلئے تیاری ایمان اور عمل ِ صالح کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے کیونکہ قبر میں انسان کا واحد ساتھی اس کا عمل ہو گا اور اس کے عمل کے مطابق ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جائے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ ،فَیَرْجِعُ اثْنَانِ وَیَبْقٰی مَعَہُ وَاحِدٌ : یَتْبَعُہُ أَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ ، فَیَرْجِعُ أَہْلُہُ وَمَالُہُ ، وَیَبْقیٰ عَمَلُہُ )) [1] ’’ میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں : پھر دو چیزیں واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک ہی چیز اس کے ساتھ باقی رہتی ہے ۔ اس کے پیچھے اس کے گھر والے ، اس کا مال اور اس کا عمل جاتا ہے۔ پھر اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس آجاتا ہے اور صرف اس کاعمل اس کے ساتھ رہتا ہے ۔‘‘ عذابِ قبر سب سے پہلے یہ جان لیجئے کہ عذابِ قبر غیبی امور میں سے ہے اور اس کے متعلق ہم صرف وہی جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں ذکر کیا ہے،اس سے زیادہ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ عذابِ قبر آخر کیوں غیبی امور میں سے ہے ؟اور اس میں کیا حکمت ہے کہ قبر میں یا عالمِ برزخ میں کسی فوت شدہ کے ساتھ جو کچھ بیت رہا ہوتا ہے اسے زندہ لوگ محسوس نہیں کر سکتے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یقینا اس میں اللہ تعالیٰ کی کئی حکمتیں ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے اور اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ ہم زندہ لوگ فوت شدگان کے عذابِ قبر سے بے خبر ہوں ۔ ورنہ اگر کسی انسان کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا باپ ، یا اس کا بھائی ، یا اس کا بیٹا ، یا اس کی بیوی، یا کوئی اور رشتہ دار ، یا کوئی عزیز دوست عذابِ قبر میں مبتلا ہے توکیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کی زندگی کس حالت میں گذرے گی ؟ کیا وہ ہر وقت پریشان اور غمگین نہیں رہے گا ؟
[1] البخاری : ۶۵۱۴ ، مسلم :۲۹۶۰