کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 389
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمَا إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ )) ’’ خبردار ! وہ جہنمی ہے ۔ ‘‘
تو لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا : آج میں اس کے ساتھ ہی رہونگا ( تاکہ دیکھ سکوں کہ یہ جہنمی کیوں ہے۔) یہ کہہ کر وہ اس کے ساتھ نکل گیا ، وہ جہاں رکتا یہ بھی رک جاتا اور وہ جہاں تیزچلتا یہ بھی تیزچلنے لگتا ۔ آخر کار وہ شخص شدید زخمی ہو گیا ۔ چنانچہ وہ صبر نہ کر سکا اور اس نے اپنی موت کیلئے جلد بازی کرتے ہوئے تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور اس کی نوک اپنے دونوں پستانوں کے درمیان رکھ کر اپنے بدن کا پورا بوجھ اس پر ڈال دیا ۔ یوں اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔ اس کا یہ انجام دیکھتے ہی تعاقب کرنے والا صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : (أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : بات کیا ہے ؟ اس نے کہا : آپ نے جب یہ فرمایا تھا کہ فلاں آدمی جہنمی ہے تو لوگوں پر یہ بات بڑی گراں گذری تھی ۔ اس پر میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آج میں اس کا تعاقب کرونگا اور تمھیں بتاؤنگا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے نکل گیا یہاں تک کہ جب وہ شدید زخمی ہوا تو اس نے موت کیلئے جلد بازی کی ۔ تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے جسم کا پورا وزن اس پر ڈال دیا ۔ یوں وہ خود کشی کرکے ہلاک ہو گیا ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّارِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ )) وفی روایۃ للبخاری : (( وَإِنَّمَا الْأعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ )) [1]
’’بے شک ایک آدمی بظاہر اہلِ جنت والا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہلِ جہنم میں سے ہوتا ہے ۔ اور ایک آدمی بظاہر اہلِ جہنم والا عمل کرتا ہے اور درحقیقت وہ اہلِ جنت میں سے ہوتا ہے ۔ اور اعمال کا دار ومدار خاتموں پر ہوتا ہے ۔ ‘‘
’’ اعمال کا دار ومدار خاتمہ پر ہے ‘‘ اس سے مقصود یہ ہے کہ جس عمل پر انسان کا خاتمہ ہوتا ہے موت کے بعد اسی کے مطابق اس سے سلوک کیا جاتا ہے ۔ اگر ایمان اورعمل صالح پر خاتمہ ہوا تو قبر میں اس سے اچھا سلوک کیا جاتا ہے ، اس کی قبر کو جنت کا باغ بنا دیا جاتا ہے اور روزِ قیامت اسے ایمان اور عمل صالح پر ہی اٹھایا جائے گا ۔ اور اگر اس کا خاتمہ ( نعوذ باللہ ) کفر یا فسق وفجور پر ہوتا ہے تو قبر میں اس سے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی قبر کو جہنم کا ایک گڑھا بنا دیا جاتا ہے اور روزِ قیامت اسے کفر یا فسق وفجور پر ہی اٹھایا جائے گا ۔ جیسا کہ رسول
[1] صحیح البخاری : 2898،6607،صحیح مسلم :112