کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 387
’’ اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گرپڑا ، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز جگہ پر پھینک دے گی۔۔۔ ‘‘[1]
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نیک لوگوں کی موت نصیب کرے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے ۔
دوسرا خطبہ
حضرات محترم!
پہلے خطبہ میں ہم نے موت کے متعلق چند گذارشات تفصیل سے عرض کی ہیں ۔ ان گذارشات کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر لحظہ موت کیلئے تیار رہیں اور موت سے غافل نہ ہوں ۔ اگر کوئی انسان اب تک موت سے غافل رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے کرتے اس نے زندگی کا بڑا حصہ گذار لیا ہے تو وہ فورا توبہ کر لے اور صراط مستقیم پر آجائے ۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿أَوَ لَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَائَ کُمُ النَّذِیْرُ﴾ [2]
’’کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس میں کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو حاصل کر لیتا اور تمھارے پاس نذیر (ڈرانے والا ) آ چکا ۔ ‘‘
’ نذیر ‘ سے بعض مفسرین نے قرآن مجید مراد لیا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس سے مراد رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے چالیس سال کی عمر مکمل ہونے کے بعد سفید بالوں کا نمودار ہونا مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿حَتّٰی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ﴾ [3]
’’ یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا : اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے ۔ ‘‘
لہٰذاجس شخص نے علمائے کرام ( جو کہ انبیاء علیہم السلام کے ورثاء ہیں) کی وعظ ونصیحت کو سنا ، اُدھر اس کے سر اور چہرے میں بڑھاپے کا ظہور ہوا اور وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا،پھر بھی اس نے توبہ نہ کی،نیک عمل کرکے
[1] سنن أبی داؤد،الحاکم،الطیالسی،الآجری،أحمد۔صحیح الجامع للألبانی:1676
[2] فاطر35:37
[3] الاحقاف46:15