کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 386
ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ جہنم کا ایک ٹاٹ ہوتاہے۔ وہ اس سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر ملک الموت ( علیہ السلام ) آتا ہے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہتا ہے : اے ناپاک روح ! تو اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی طرف نکل ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی روح اس کے جسم میں ادھر ادھر جاتی ہے تو ملک الموت اسے یوں کھینچتا ہے جیسے گوشت بھوننے والی سیخ کو تر اُون سے کھینچا جائے ۔ اس سے اس کی رگیں اور آنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں ۔ پھر زمین و آسمان کے درمیان اوراسی طرح آسمان پر جتنے فرشتے ہوتے ہیں سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ اور آسمان کے دروازے اس کیلئے بند کر دئے جاتے ہیں ۔ اور ہر دروازے پر متعین فرشتے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی روح کو ان کے راستے سے اوپر نہ لے جایا جائے ۔ پھر جب ملک الموت اس کی روح کوقبض کرلیتا ہے تو وہ فرشتے جو اس کیلئے جہنم سے ٹاٹ لے کر آتے ہیں اور دور بیٹھے ہوتے ہیں وہ پلک جھپکتے ہی اس کے پاس آ جاتے ہیں اور ملک الموت سے اس کی روح کو لے لیتے ہیں اور اسے اس ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں ۔ اس کی روح سے زمین پر پائی جانے والے کسی مردہ جانور کی سب سے گندی بد بو پھوٹ نکلتی ہے ۔ پھر وہ اسے لے کر( آسمان کی طرف ) اوپر جاتے ہیں اور وہ جتنے فرشتوں کے پاس سے گذرتے ہیں وہ سب کہتے ہیں : یہ کتنی ناپاک روح ہے ! تو وہ جواب دیتے ہیں : یہ فلاں بن فلاں ہے ۔ وہ اسے سب سے برے نام کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جس کے ساتھ دنیا میں اس کا تذکرہ کیاجاتاتھا یہاں تک کہ وہ اسے لے کر آسمانِ دنیا ( پہلے آسمان) پر پہنچ جاتے ہیں ۔ تو فرشتے اس کیلئے دروازہ کھلواتے ہیں لیکن اس کیلئے دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَائِ وَلاَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ﴾[1] یعنی ’’ ان کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے ۔ ‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس کی کتاب سجین ( سب سے نچلی زمین ) میں لکھ دو ۔ پھر کہا جاتا ہے : اسے زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں نے انھیں اسی سے پیدا کیا ہے ،میں انھیں اسی میں لوٹاؤں گا اور ایک بار پھر انھیں اسی سے اٹھاؤں گا ۔ تو اس کی روح کو آسمان سے زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے جسم میں واپس آ جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَاخَرَّ مِنَ السَّمَائِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُأَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ﴾[2]
[1] الأعراف7:40 [2] الحج22 :31