کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 381
نیک اور بد کی موت میں فرق
جس طرح نیک اور بد کی زندگی اور اللہ کے فرمانبردار اور اس کے نافرمان کی زندگی ایک جیسی نہیں ہوتی اسی طرح ان دونوں کی موت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَّحْیَاہُم وَمَمَاتُہُمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ﴾[1]
’’ کیا برے کام کرنے والوں کا یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ؟ کیا ان کا مرنا جینا ایک جیسا ہو گا ؟ برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں ۔ ‘‘
یعنی اگر ان مجرموں کا یہ خیال ہے کہ ان کا اور ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کا مرنا جینا ایک جیسا ہو گا تو یقینی طور پر ان کا یہ خیال برا ہے ، کیونکہ ان کی موت وحیات میں بہت فرق ہے ۔۔۔ اور یہ فرق کیا ہے ؟ اس بارے میں متعدد قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ موجود ہیں ۔ ان میں سے چند ایک آپ بھی سماعت فرما لیں :
نیک اور صالح انسان کی موت کی کیفیت کواللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتے ہیں :
﴿یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ. ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً . فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾[2]
’’ اے اطمینان والی روح ! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل ، اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش ۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا ۔ ‘‘
یہ عظیم خوشخبری مومن کو اس کی موت کے وقت دی جاتی ہے ۔ گویا اس کی موت آسان ہوتی ہے اور اس حالت میں اس پر آتی ہے کہ جب وہ اللہ سے اور اللہ اس سے راضی ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ کے نافرمان کی موت اس حالت میں آتی ہے کہ فرشتۂ موت اسے موت کے وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی خبر سناتا ہے اور اس کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے : تو اللہ تعالیٰ کے غضب کی طرف چلی جا ۔
برے اور نافرمان انسان کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَلَوْ تَرَی إِذِ الظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِکَۃُ بَاسِطُوا أَیْدِیْہِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ﴾[3]
[1] الجاثیۃ45 :21
[2] الفجر89: 30-27
[3] الأنعام6: 93