کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 377
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ارشاد فرمایا :
(( کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ))
’’ دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے :
(( إِذَا أَمْسَیْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ،وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَائَ،وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ،وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ)) [1]
’’ جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار مت کرو اورجب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار مت کرو۔ اور تندرستی کی حالت میں اتنا عمل کر لو کہ جو بیماری کی حالت میں بھی کافی ہو جائے ۔ اور اپنی زندگی میں اس قدر نیکیاں کما لوکہ جو موت کے بعد بھی تمھارے لئے نفع بخش ہوں ۔ ‘‘
مسند احمد وغیرہ میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
(( کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ، وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَہْلِ الْقُبُوْرِ[2]))
’’ دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو ۔ ‘‘
ایک اور روایت میں یوں ارشاد فرمایا :
(( یَا ابْنَ آدَمَ ! اِعْمَلْ کَأَنَّکَ تَرَی اللّٰہَ،وَعُدَّ نَفْسَکَ مَعَ الْمَوْتٰی،وَإِیَّاکَ وَدَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ)) [3]
’’ اے ابن آدم ! تم عمل یوں کرو کہ جیسے تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو ۔ اور اپنے آپ کو فوت شدگان میں شمار کرو ۔ او رمظلوم کی بد دعا سے بچو ۔ ‘‘
جہاں تک موت سے غفلت کا دوسرا سبب ( یعنی جہالت ) کا تعلق ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ بہت سارے لوگ اپنی جوانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موت جوانی میں نہیں بڑھاپے میں آتی ہے۔ اور یہی سمجھ کر وہ موت سے غافل ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر وہ اپنے محلے میں بوڑھے لوگوں کی گنتی کریں تو شاید وہ دس سے بھی کم ہوں ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیادہ تر لوگ بڑھاپے تک پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا جاتے ہیں ۔
جبکہ کئی لوگ اپنی تندرستی سے دھوکہ کھاجاتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ موت تو بیماری کی حالت میں
[1] صحیح البخاری،الرقاق باب قول النبی صلي الله عليه وسلم (کن فی الدنیا کأنک غریب…):6416
[2] الصحیحۃ للألبانی:1157
[3] المرجع السابق