کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 376
لیکن صد افسوس ! ہمارے سامنے ہر وقت دنیاوی خواہشات کی ایک لمبی چوڑی فہرست رہتی ہے جس کو پورا کرنا ہمارا مقصدِ حیات ہوتا ہے ۔ اور جب تک ان میں سے چند خواہشات پوری ہوتی ہیں تب تک زندگی کا بڑا حصہ گذر چکا ہوتا ہے اور مزید خواہشات جنم لے چکی ہوتی ہیں ۔ اور ابھی بہت ساری خواہشات نامکمل ہوتی ہیں کہ فرشتۂ اجل دروازے پر آ پہنچتا ہے ۔ تب سوائے پچھتاوے اور افسوس کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا یَزَالُ قَلْبُ الْکَبِیْرِ شَابًّا فِیْ اثْنَتَیْنِ : فِیْ حُبِّ الدُّنْیَا ، وَطُوْلِ الْأمَلِ[1]))
’’دو چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں عمر رسیدہ انسان کا دل ہمیشہ جوان رہتا ہے : دنیا سے محبت اور لمبی لمبی امیدیں ۔ ‘‘
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( یَکْبُرُ ابْنُ آدَمَ وَیَکْبُرُ مَعَہُ اثْنَانِ : حُبُّ الْمَالِ ، وَطُوْلُ الْعُمُرِ[2]))
’’ ابنِ آدم جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے اس کے ساتھ دو چیزیں بھی بڑی ہوتی رہتی ہیں : مال کی محبت اور لمبی زندگی کی خواہش۔ ‘‘
حالانکہ ابن ِ آدم ذرا سا سوچے تو اسے یقین ہو جائے کہ اس کی موت نے تواسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع لکیر کھینچی ، پھر اس کے عین درمیان میں ایک اورلکیر کھینچی جو ایک جانب سے باہر کو جا رہی تھی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیان والی لکیر کی دونوں جانب چھوٹی چھوٹی اور لکیریں کھینچیں ۔ پھر ارشاد فرمایا :
(( ہٰذَا الْإِنْسَانُ،وَہٰذَا أَجَلُہُ مُحِیْطٌ بِہٖ،وَہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ خَارِجٌ:أَمَلُہُ، وَہٰذِہِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ:الْأعْرَاضُ،فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہٰذَا نَہَشَہُ ہٰذَا،وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہٰذَا نَہَشَہُ ہٰذَا[3]))
’’یہ ( درمیان والی لکیر ) انسان ہے اور یہ ( مربع لکیر ) اس کی موت ہے جس نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔ اور یہ جو لکیر باہر کو نکل رہی ہے یہ اس کی امیدیں ہیں ۔ اور یہ جو درمیان والی لکیر کی دونوں جانب چھوٹی چھوٹی لکیریں ہیں یہ اس کو پیش آنے والی غیر دائمی پریشانیاں ہیں ۔ اگر وہ اس ( پریشانی ) سے بچ جائے تو یہ اسے آ دبوچتی ہے اور اگر وہ اس سے بچ جائے تو ایک اور پریشانی اسے ڈس لیتی ہے ۔ ‘‘
لہٰذا موت سے غافل ہونے کی بجائے ہمیشہ موت کو یاد رکھنا چاہئے اور دنیا میں یوں رہنا چاہئے جیسا کہ
[1] صحیح البخاری:6420
[2] صحیح البخاری:6421
[3] صحیح البخاری:6417