کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 375
(( لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ،إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَخْبَرَ مُوْسٰی بِمَا صَنَعَ قَوْمُہُ فِیْ الْعِجْلِ فَلَمْ یُلْقِ الْألْوَاحَ،فَلَمَّا عَایَنَ مَا صَنَعُوْا أَلْقَی الْألْوَاحَ فَانْکَسَرَتْ[1]))
’’ کسی خبر کا سننا اس کو دیکھنے کی مانند نہیں ہوتا ۔ اسی لئے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو ان کی قوم کے بارے میں خبر دی کہ اس نے بچھڑے کو معبود بنا لیا ہے تو انہوں نے اپنی تختیاں نہ پھینکیں ، لیکن جب انہوں نے جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو ( غصے سے ) تختیاں پھینک دیں جس سے وہ ٹوٹ گئیں ۔ ‘‘
یعنی جن لوگوں کی موت کا وقت قریب ہوانھیں دیکھنا ، قبروں پر جا نا اورمیت کو غسل دینے ،کفن پہنانے اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے کے بعد اس کی تدفین کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا ، محض خبریں سننے کی بہ نسبت زیادہ مؤثر اور عبرتناک ہے ۔
موت سے غفلت کیوں ؟
موت اور موت کے بعد آنے والے تمام مراحل کٹھن اور انتہائی خوفناک ہیں ۔ اس لئے سچا مومن جب بھی موت اور قبر کا تصور اپنے ذہن میں لاتا ہے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ اس کے خوف سے کانپ اٹھتا ہے ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے ایک انسان کو پر خطر سفر طے کرنا ہو تو وہ سفر شروع کرنے سے پہلے ہر وقت اس کے متعلق سوچ وبچار میں پڑا رہتا ہے اور ہر ممکن حد تک اس کے خطرات کو کم کرنے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے ۔ بالکل اسی طرح آخرت کا سفر ہے جس کا آغاز موت سے ہوتا ہے اور اس کی پہلی منزل قبر ہے ۔۔ جی ہاں ! ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی کہ جہاں کوئی دوست کام آئے گا نہ رشتہ دار ساتھ دیں گے ۔۔۔
کہا احباب نے ہر دفن کے وقت اب ہم وہاں کا کیاحال جانیں
لحد تک آپ کی تعظیم کردی آگے آپ کے نامہ اعمال جانیں
پھر اس کے بعد آنے والی تمام منزلیں اس سے بھی زیادہ سنگین ۔۔۔ تو ایسے پر خطر سفر سے آخر ہم لوگ کیوں غافل ہیں ؟ موت کا تصور ہمیں کیوں نہیں جھنجھوڑتا ؟ موت کو یاد کرکے ہم خوابِ غفلت سے کیوں بیدار نہیں ہوتے؟ بظاہر اس کے دو اسباب ہیں : ایک دنیا کی محبت اور دوسرا جہالت
چنانچہ دنیا کی محبت اور اس کی لذتوں اور شہوتوں میں ہم اس قدر غرق ہو چکے ہیں کہ کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں کہ جس طرح ہمارے باپ دادا اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے اسی طرح ہمیں بھی اسے الوداع کہنا ہے ۔
[1] مسند أحمد:260/4:2447،صحیح ابن حبان :6213۔ وہو حدیث صحیح