کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 365
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! سلام کا طریقہ تو ہمیں اللہ تعالیٰ نے سکھلا دیا ہے ، ہم درود کیسے بھیجیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم یوں کہا کرو :
(( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ )) [1]
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : (( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ آلِ إِبْرَاہِیْمَ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ )) [2]
سب سے افضل درود یہی درود ہے جو کہ درود ابراہیمی کہلاتا ہے اورجوخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلایا تھا ۔ اس کے مختلف الفاظ مختلف روایات میں موجود ہیں ۔ اور درود کے سب سے زیادہ بابرکت الفاظ بھی وہی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک سے سکھلائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر نہیں بولتے تھے۔ لہٰذا انھیں چھوڑ کر کسی اور شخص کے بنے ہوئے درود کے الفاظ کو نہ بہتر قرار دیا جا سکتا ہے اورنہ ان کے پڑھنے کی کوئی فضیلت ہے ۔
درود بھیجنے کی فضیلت میں کئی احادیث ثابت ہیں ۔یہاں ہم صرف تین احادیث ذکر کرتے ہیں :
۱۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ،صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا [3]))
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ ‘‘
۲۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً،صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ،وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ )) [4]
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کرتا ہے۔ ‘‘
[1] صحیح البخاری :3370
[2] صحیح البخاری :3369
[3] صحیح مسلم :409
[4] صحیح الجامع :6359