کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 360
مجلس برخاست کی تو وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ وہ گھڑی یومِ جمعہ کی آخری گھڑی ہے ۔[1] ان مختلف روایات کی بناء پر اس مبارک گھڑی کی تحدید میں علماء کے درمیان بھی شدید اختلاف پایا جاتا ہے حتی کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فتح الباری میں چالیس اقوال ذکر کئے ہیں ۔ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ گھڑی متعین ہی نہیں ہے اور اسے لیلۃ القدر کی طرح مخفی رکھا گیا ہے تاکہ اللہ کے بندے اسے تلاش کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دعا کریں ۔ جبکہ پہلی روایت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ مبارک گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے نمازِ جمعہ کے ختم ہونے کے دوران کسی وقت آتی ہے ۔ اور دوسری روایات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ گھڑی جمعہ کے روز عصر کے بعد آتی ہے۔ اور جناب سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی قول نقل کیا ہے اور اسی وجہ سے وہ ( سعید بن جبیر رحمہ اللہ ) عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک کسی سے کوئی بات نہیں کرتے تھے اور یہ وقت ذکر اور دعا میں گذارتے تھے۔[2] امام ابن القیم الجوزیۃ رحمہ اللہ نے انہی دو اقوال کو راجح قرار دیا ہے کیونکہ یہ دونوں اقوال صحیح احادیث پر مبنی ہیں ۔ اور ان میں سے دوسرے قول کو زیادہ راجح بتایا ہے۔[3] جبکہ بعض علماء ان دونوں روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ کبھی یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے نمازِ جمعہ کے ختم ہونے کے دوران آتی ہے اور کبھی عصر کے بعد آتی ہے ۔ لہٰذا ان دونوں اوقات میں اس کی امید رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے ۔ واللہ اعلم نمازِ جمعہ کے بعد نمازِ سنت عزیزان گرامی ! ہم اس سے پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ نمازِ جمعہ سے پہلے کوئی سنت نماز نہیں ہے۔ اور جہاں تک نمازِ جمعہ کے بعد سنتوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے یہ ثابت ہے کہ آپ دو رکعات ادا فرماتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ الظُّہْرِ رَکْعَتَیْنِ،وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَہَا، وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ رَکْعَتَیْنِ فِیْ بَیْتِہٖ ، وَبَعْدَ الْعِشَائِ رَکْعَتَیْنِ،وَکَانَ لَا یُصَلِّیْ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ فَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ ۔[4]
[1] زاد المعاد :379/1 [2] زاد المعاد ::382/1 [3] زاد المعاد ::378/1 [4] صحیح البخاری :937،صحیح مسلم :882