کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 344
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : تم وتر کس وقت پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا :عشاء کے بعد رات کے ابتدائی حصہ میں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:تم کس وقت پڑھتے ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا:رات کے آخری حصے میں۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَمَّا أَنْتَ یَا أَبَا بَکْرٍ فَأَخَذْتَ بِالْوُثْقٰی ، وَأَمَّا أَنْتَ یَا عُمَرُ فَأَخَذْتَ بِالْقُوَّۃِ [1])) ’’ اے ابو بکر ! تم نے مضبوطی کو پکڑا ہے ، اور اے عمر ! تم نے قوت کو پکڑا ہے ‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عمل کو مستحسن اور مضبوط قرار دیا کیونکہ وہ احتیاط سے کام لیتے اور نیند کی وجہ سے وتر کے فوت ہونے کے اندیشے کے پیشِ نظر اسے سونے سے پہلے پڑھ لیتے ۔ اور چونکہ نیند کو قربان کرکے نماز کیلئے بیدار ہونا ایک مشکل امر ہے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں داد تحسین دی کہ تم نے طاقت ، ہمت اور پختہ ارادے کا ثبوت دیا ہے ۔ 3۔جس شخص کو بیدار ہونے کا یقین ہو اس کیلئے وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھنا افضل ہے جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَنْ خَافَ أَنْ لَّا یَقُوْمَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ فَلْیُوْتِرْ أَوَّلَہُ ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ یَّقُوْمَ آخِرَہُ فَلْیُوْتِرْ آخِرَ اللَّیْلِ ، فَإِنَّ صَلَاۃَ آخِرِ اللَّیْلِ مَشْہُوْدَۃٌ،وَذٰلِکَ أَفْضَلُ[2])) ’’ جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا تو وہ رات کے ابتدائی حصہ ہی میں وتر پڑھ لے ۔ اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کا خواہشمند ہو تو وہ آخری حصہ ہی میں پڑھے ، کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز میں رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے ۔ ‘‘ اور آخرِ شب میں وتر پڑھنے کی فضیلت ایک اور حدیث سے بھی ثابت ہوتی ہے جسے ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں اور یہاں دوبارہ اس کی یاددہانی کراتے ہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ ، فَیَقُوْلُ : مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ)) وفی روایۃ لمسلم : (( فَلَا یَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ )) [3]
[1] سنن ابن ماجہ :1202 ۔ وأبو داؤد : 1434من حدیث أبی قتادۃ ۔ وصححہ الألبانی [2] صحیح مسلم : 755 [3] صحیح البخاری :1145،6321،7494، صحیح مسلم :758