کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 343
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز زیادہ عطا کی ہے اور وہ ہے نمازِ وتر ۔ لہٰذا تم اسے نمازِ عشاء اور نمازِ فجر کے درمیان کسی وقت پڑھ لیا کرو۔‘‘ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کا وقت نمازِ عشاء اور نمازِ فجر کے درمیان ہے چاہے کوئی شخص نمازِ عشاء اپنے وقت پر ادا کرے یا اسے مغرب کے ساتھ جمع تقدیم کرکے پڑھے ، کیونکہ وتر کا وقت نمازِ عشاء کے بعد سے ہی شروع ہو جاتا ہے ۔ اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَنْ أَدْرَکَ الصُّبْحَ فَلَمْ یُوْتِرْ، فَلَا وِتْرَ لَہُ [1])) ’’ جس شخص کی صبح اس حالت میں ہو ئی کہ اس نے نمازِ وتر نہیں پڑھی تو اب اس کی نماز وتر نہیں ۔‘‘ اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ ذَہَبَ کُلُّ صَلَاۃِ اللَّیْلِ وَالْوِتْرُ،فَأَوْتِرُوْا قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ [2])) ’’ جب فجر طلوع ہو جائے تو رات کی ساری نمازکا اور اسی طرح نمازِ وتر کا وقت چلا جاتا ہے ، لہٰذا تم طلوعِ فجر سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو ۔ ‘‘ ان تمام احادیث کو سامنے رکھ کر یہ بات کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ وتر کا وقت نمازِ عشاء کے بعد شروع ہوتا ہے اور فجر صادق کے طلوع ہونے پر ختم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے بعد کسی کے قول کی کوئی حیثیت نہیں ۔ 2۔جس شخص کو رات کے آخری حصہ میں بیدار نہ ہونے کا اندیشہ ہو اس کیلئے سونے سے پہلے وتر پڑھنا مستحب ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( أَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ صلي اللّٰه عليه وسلم بِثَلاَثٍ لَا أَدَعُہُنَّ حَتّٰی أَمُوْتَ ] صِیَامُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ، وَرَکْعَتَیِ الضُّحٰی ، وَأَنْ أُوْتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ) ’’ مجھے میرے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کا تاکیدی حکم دیا ہے جنہیں میں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا اور وہ ہیں ہر مہینے میں تین دن کے روزے ، چاشت کی دو رکعات اور یہ کہ میں نمازِ وترسونے سے پہلے پڑھوں ۔ ‘‘[3] اس سے معلوم ہوا کہ وتر کا معاملہ لوگوں کے احوال اور ان کی طاقت پر موقوف ہے ۔ اس کی ایک اور دلیل حضرت
[1] ابن حبان ۔ الإحسان : 168/6:2408،ابن خزیمہ:148/2 :1092، والحاکم :301/1 وصححہ ووافقہ الذہبی ، وصححہ الألبانی فی تحقیق ابن خزیمۃ [2] سنن الترمذی :469۔ وصححہ الألبانی [3] البخاری:1981،1178،مسلم :721