کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 338
’’ اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحمت فرمائے جو رات کو بیدار ہوا اور اس نے نماز پڑھی ، پھر اس نے اپنی بیوی کو بھی جگایا اور اس نے بھی نماز پڑھی ۔ اگر اس نے انکار کیا تو اس نے اس کے چہرے پر پانی چھڑکا ۔ اور اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحمت فرمائے جو رات کو بیدار ہوئی اور اس نے نماز پڑھی ، پھر اس نے اپنے خاوند کو بھی جگایا اور اس نے بھی نماز پڑھی ۔ اگر اس نے انکار کیا تو اس نے اس کے چہرے پر پانی چھڑکا ۔ ‘‘
اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِذَا اسْتَیْقَظَ الرَّجُلُ مِنَ اللَّیْلِ وَأَیْقَظَ امْرَأَتَہُ فَصَلَّیَا رَکْعَتَیْنِ،کُتِبَا مِنَ الذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَالذَّاکِرَاتِ[1]))
’’ جب ایک شخص رات کو بیدار ہو اور وہ اپنی بیوی کو بھی جگائے ، پھر وہ دو رکعات ادا کریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کا زیادہ ذکر کرنے والوں اور ذکرنے والیوں میں لکھ دیا جاتا ہے ۔ ‘‘
اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات کے وقت آئے اور آپ نے فرمایا : ( أَلَا تُصَلِّیَانِ؟ ) ’’ تم دونوں نماز نہیں پڑھتے ؟ ‘‘ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جب چاہے گا توہمیں اٹھا دے گا۔ میں نے جب یہ بات کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا تاہم جب آپ پیٹھ پھیر رہے تھے تو اس وقت میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنا ہاتھ اپنی ران پر مارا اور فرمایا : (وَکَانَ الْإِنْسَانُ أَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا ) ’’انسان اکثر باتوں میں جھگڑالو واقع ہوا ہے ۔ ‘‘[2]
اگرقیام اللیل کا اتنا زیادہ اجر وثواب نہ ہوتا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی اور اپنے چچا زاد کے پاس ایسے وقت میں نہ جاتے جسے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے آرام کیلئے بنایا ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے آرام و سکون پر قیام اللیل کی فضیلت کو ترجیح دی تاکہ وہ دونوں اسے حاصل کرسکیں ۔
اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا ہٹ کی حالت میں بیدار ہوئے اور آپ نے ارشاد فرمایا :
(( سُبْحَانَ اللّٰہِ ! مَاذَا أَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْخَزَائِنِ!وَمَاذَا أَنْزَلَ مِنَ الْفِتَنِ ! أَیْقِظُوْا صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ ۔ یُرِیْدُ أَزْوَاجَہُ حَتّٰی یُصَلِّیْنَ ۔ ، رُبَّ کَاسِیَۃٍ فِیْ الدُّنْیَا عَارِیَۃٌ فِیْ الْآخِرَۃِ [3]))
[1] سنن ابن ماجہ : 1335، سنن أبی داؤد :1309۔ وصححہ الألبانی
[2] صحیح البخاری:1127،صحیح مسلم :775
[3] صحیح البخاری :115 ، 1126،6218