کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 312
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی عمل سب سے زیادہ محبوب تھا جسے اس کا کرنے والا ہمیشہ کرتا رہے ۔[1]
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے توآپ نے دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی باندھی ہوئی ہے۔ آپ نے پوچھا : یہ رسی کیسی ہے ؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا:
یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کیلئے ہے جو نماز پڑھتی ہیں اور جب تھک جاتی ہیں تواسی رسی کا سہارا لے لیتی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَا ،حُلُّوْہُ ، لِیُصَلِّ أَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ ، فَإِذَا فَتَرَ فَلْیَقْعُدْ))
’’ نہیں ، اسے کھول دو ۔ اور تم میں سے ہر شخص اس وقت تک نماز پڑھے جب تک کہ وہ چست ہو ۔ اور جب تھک جائے تو وہ بیٹھ جائے ۔‘‘ [2]
جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَّ الدّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا، وَأَبْشِرُوْا ، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْئٍ مِنَ الدُّلْجَۃِ )) [3]
’’ دین ( اسلام ) یقینا آسان ہے ۔ اور جو شخص دین میں سختی کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا۔ لہٰذا تم (افراط وتفریط سے بچتے ہوئے ) درمیانی راہ اختیار کرو ، قریب رہو اور خوش ہو جاؤ ۔ اور صبح ، شام اورکچھ رات کے حصے میں عبادت کرکے مدد طلب کرو ۔ ‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا،وَاغْدُوْا وَرُوْحُوْا،وَشَیْئًا مِّنَ الدُّلْجَۃِ،وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوْا [4]))
’’ تم میانہ روی اختیار کرو ۔ ( اعتدال کے ) قریب رہو ۔ صبح کے وقت بھی عبادت کرو اور شام کے وقت (دوپہر کے بعد ) بھی ۔ اسی طرح رات کے کچھ حصے میں بھی عبادت کرو ۔ اور میانہ روی ہی اختیار کرو تاکہ تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ ۔‘‘
ان تمام احادیث میں عمل صالح پر ہمیشگی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔اور ان میں اس بات کی دلیل بھی ہے
[1] صحیح البخاری : 1151،785
[2] صحیح البخاری:1150، صحیح مسلم :784
[3] صحیح البخاری :39
[4] صحیح البخاری : 6463