کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 301
بیٹھی رو رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اِتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ )) ’’ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صبر کرو ۔‘‘
اس نے کہا : آپ جائیں اپنا کام کریں ، آپ کو کیا معلوم کہ مجھ پر کتنی بڑی مصیبت آئی ہے!
پھر اسے بتایا گیا کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ تو وہ فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچی ، اسے وہاں کوئی پہرے دار نہ ملا اور وہ سیدھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئی اور کہنے لگی : میں آپ کو نہیں پہچان سکی تھی ( اس لئے مجھے معاف کردیں ۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأوْلیٰ[1]))
’ ’صبر تو ابتدائے صدمہ میں ہی ہوتا ہے ۔ ‘‘
تویہ ہیں تین شرائط جن کی موجودگی میں ایک صابر ’’صبر ‘‘ کا مکمل اجرو ثواب اور اس کے فوائد وثمرات حاصل کر سکتا ہے ۔
اِس کے ساتھ ہی یہ بھی جان لیجئے کہ آزمائشوں میں مبتلاء انسان اگر اللہ تعالیٰ کے سامنے دست بدعا ہو کر اس سے یہ سوال کرے کہ وہ اسے ان آزمائشوں سے نجات دے تو یہ صبر کے منافی نہیں بلکہ عین عبادت ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت انبیاء کرام علیہم السلام کا وہ طرز عمل ہے جو وہ مختلف مصائب وآلام میں اختیار کرتے تھے، چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو جب برادران ِ یوسف علیہ السلام نے بتایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیے نے کھا لیا ہے تو انھوں نے کہا : ﴿ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَّاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلیٰ مَا تَصِفُوْنَ ﴾ پھر جب ان کے دوسرے بھائی کے بارے میں انھیں بتایا گیا کہ بادشاہ نے اسے چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے تو تب بھی انھوں نے یہی کہا : ﴿ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ عَسَی اللّٰہُ أَنْ یَّأْتِیَنِی بِہِمْ جَمِیْعًا ﴾ اس کے بعد انھوں نے کہا :
﴿ إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّیْ وَحُزْنِیْ إِلَی اللّٰہِ ﴾ ’’ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام بھی اپنے دورِ ابتلاء میں اللہ تعالیٰ کو ہی پکارتے رہے اور بار باریہ دعا کرتے رہے : ﴿ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ﴾
اور حضرت یونس علیہ السلام سمندر کی گہرائی اور مچھلی کے پیٹ میں یوں دعا کرتے رہے :
﴿ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ﴾
اس سے یہ ثابت ہوا کہ پریشانیوں اور آزمائشوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا قطعا صبر کے منافی نہیں بلکہ یہی
[1] صحیح البخاری : 1283، صحیح مسلم : 926