کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 299
کی وجہ سے ، یا ان کیلئے مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے ، یا اولاد میں صرف بیٹیاں ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ تو اس قسم کی آزمائش میں بھی والدین کو مکمل صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور انہیں اپنے لئے باعث ِ خیر وبرکت تصور کرتے ہوئے اور روزِ قیامت انھیں اپنے لئے باعث ِ نجات سمجھتے ہوئے ان کی تعلیم وتربیت پر پوری توجہ دینی چاہئے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنِ ابْتُلِیَ بِشَیْیٍٔ مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ [1]))
’’ جس شخص کو بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح سے آزمائش میں ڈالا جائے ، پھر وہ ان پر صبر کرتا رہے تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘
اور صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے آئی، اس نے مجھ سے کچھ مانگا تو میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ ملا ۔ چنانچہ میں نے وہی کھجور اس کو دے دی ۔ اس نے اس کے دو حصے کئے اور دونوں بیٹیوں کو آدھی آدھی کھجور دے دی اور خود اس نے کچھ نہ کھایا اور چلی گئی ۔ پھر میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو اُس کے بارے میں بتایا ۔ تب آپ نے ارشاد فرمایا :
(( مَنِ ابْتُلِیَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَیْیٍٔ فَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ [2]))
’’ جس شخص کو بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح آزمایا جائے ، پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَا وَہُوَ )) وَضَمَّ أَصَابِعَہُ
’’ جو آدمی دو بچیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو قیامت کے روز وہ اور میں ایسے اکٹھے ہونگے جیسے یہ انگلیاں اکٹھی ہیں ۔ ‘‘[3]
[1] سنن الترمذی :1913۔ وصححہ الألبانی
[2] البخاری:1418،5995، مسلم :2629
[3] صحیح مسلم :2631