کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 298
(( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ أُوْذِیَ بِأَکْثَرَ مِنْ ہَذَا فَصَبَرَ [1])) ’’ اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام پر رحم کرے ، انھیں اِس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انھوں نے صبر کیا ۔ ‘‘ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( اَلْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ،أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ [2])) ’’ جو مومن لوگوں میں گھل مل جاتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے وہ اُس مومن سے زیادہ اجروثواب کا مستحق ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔‘‘ حکمرانوں کے ظلم پر صبر آزمائشوں میں سے ایک آزمائش رعایا پر حکمرانوں کے ظلم کی صورت میں آتی ہے ۔ چنانچہ بعض اوقات وہ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام کو نافذ کرکے عوام پر ظلم کرتے ہیں ۔ بعض اوقات بے گناہ لوگوں کو ناجائز مقدمات میں ملوث کرکے پریشان کرتے ہیں ۔ بعض اوقات مجرم پیشہ لوگوں کو چھوٹ دے دیتے ہیں کہ وہ جیسے چاہیں، جب چاہیں اور جہاں چاہیں لوگوں کی عزتوں اور ان کے اموال کو لوٹیں اور ان کی جانوں سے کھیلتے رہیں ۔ بعض اوقات اہل اور باصلاحیت افراد کو ان کے حقوق سے محروم کرکے سفارشوں اور رشوت کے ذریعے نا اہل لوگوں کو نوازا جاتا ہے اور بعض اوقات اربابِ اقتدار اور اصحابِ اختیار غریب عوام کا خون پسینہ چوستے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے پر ہی تلے رہتے ہیں ۔۔۔۔ سو اِس قسم کی آزمائشوں میں بھی انسان کو دامن ِ صبر نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَنْ رَأَی مِنْ أَمِیْرِہٖ شَیْئًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ )) [3] ’’ جو شخص اپنے حکمران سے کوئی نا پسندیدہ چیز دیکھے تو اس پر صبر کرے ۔ ‘‘ بیٹیوں کی آزمائش پر صبر بعض اوقات انسان اپنی بیٹیوں کی وجہ سے بھی آزمائش میں مبتلا ہو جاتا ہے ، مناسب تعلیم وتربیت نہ ہونے
[1] صحیح البخاری :3405، صحیح مسلم :1062 [2] سنن الترمذی :2507، سنن ابن ماجہ :4032 ۔ وصححہ الألبانی [3] صحیح مسلم : 1849