کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 297
آپ صلی اللہ علیہ وسلم عافیت کیلئے دعا کرنے کی پیش کش فرما رہے ہیں اور اس میں جنت کی ضمانت نہیں ہے ۔)
تو اس نے کہا : میں صبر ہی کرتی ہوں ، تاہم میں مرگی کے دورہ میں بے پردہ ہو جاتی ہوں تو آپ بس یہ دعا کر دیجئے کہ میں کم از کم بے پردہ نہ ہوں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا فرمائی ۔[1]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ : إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِیْ بِحَبِیْبَتَیْہِ فَصَبَرَ ، عَوَّضْتُہُ مِنْہُمَا الْجَنَّۃَ )) یُرِیْدُ عَیْنَیْہِ [2]
’’ بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب میں اپنے بندے کو اس کی آنکھوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالتا ہوں ( یعنی اس کی بینائی چھین لیتا ہوں ) پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں اس کی آنکھوں کے بدلے میں اسے جنت عطا کرتا ہوں ۔ ‘‘
لوگوں کی اذیتوں پر صبر
آزمائش بعض اوقات یوں بھی آتی ہے کہ لوگ خواہ مخواہ کسی مسلمان کو پریشان کرتے ہیں ، جھوٹے الزامات لگاتے ہیں یا طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ یا برا بھلا کہتے ہیں اور مختلف القاب سے اس کا ذکر کرکے اس کی اذیت کا سبب بنتے ہیں ۔ تو اِس قسم کی آزمائش میں بھی مسلمان کو صابر ہونا چاہئے اور اسے یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لوگوں نے تو امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معاف نہیں کیا ۔ کسی نے آپ کو ’’ مجنون ‘‘ کہا ، کسی نے ’’ دیوانہ شاعر ‘‘ کہا اور کسی نے ’’ ساحر ‘‘ کہا ۔اور زبانی اذیتوں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اذیتیں بھی پہنچائیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر کہ ﴿ فَاصْبِرْ عَلیٰ مَا یَقُوْلُوْنَ﴾ [3]
’’ آپ ان کی باتوں پر صبر ہی کیجئے ‘‘ ہمیشہ صبر وتحمل کا ہی مظاہر ہ کیا ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال تقسیم کیا، ایک شخص نے کہا: یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والی نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اُس شخص کی اِس بات کے بارے میں مطلع کیا ۔ تب میں نے آپ کے چہرۂ انور پر غصے کے آثار دیکھے ۔ پھر آپ نے فرمایا :
[1] صحیح البخاری :5652،صحیح مسلم :2576
[2] صحیح البخاری :5653
[3] طہ 20: 130