کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 296
بھی اسی کی تلقین کی ۔۔۔۔۔۔کاش اِس دور کی خواتین بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی طرح صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے مواقع پر بے صبری ، سینہ کوبی اور اونچی اونچی آواز سے رونے پیٹنے سے پرہیز کریں !
جسمانی تکلیفوں پر صبر
مختلف آزمائشوں میں سے ایک آزمائش جسمانی بیماریوں کی شکل میں آتی ہے۔ ( نسأل اللّٰه العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ) لہٰذا جو لوگ اس قسم کی آزمائش میں مبتلا ہوں انھیں بھی صبر وتحمل ہی کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی جسمانی بیماری میں ‘ جو تقریبا بارہ تیرہ سال جاری رہی ‘ صبر کرتے تھے اور اس دوران بار بار یہی دعا کرتے تھے کہ
﴿ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ﴾
’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی اور انھیں صحت وتندرستی جیسی عظیم نعمت سے نوازا ۔
جسمانی بیماریوں میں مبتلا حضرا ت کو یہ بات ہمیشہ اپنے ذہنوں میں رکھنی چاہئے کہ بیماری سے شفا دینے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ۔ لہٰذا ہر وقت اسی کے سامنے عاجزی ، انکساری اور محتاجی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے عافیت کا سوال کرتے رہیں ۔ نیز انھیں اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس عظیم خوشخبری کے ساتھ تسلی دینی چاہئے جو آپ نے ایک بیمار عورت کو دی تھی ۔
عطاء بن ابی رباح جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد تھے ، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : کیا میں تمھیں ایک جنتی خاتون نہ دکھلاؤں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ۔ تو انھوں نے فرمایا : یہ جو کالے رنگ کی عورت ہے ، یہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی : مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے میں بے پردہ ہو جاتی ہوں ۔ لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا کیجئے ۔ تو آپ نے فرمایا :
(( إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الْجَنَّۃُ ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّعَافِیَکِ ))
’’ اگر تم چاہو تو صبر کرو ( اور اگر صبر کروگی تو ) تمھارے لئے جنت ہے ۔ اور اگر چاہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمھیں عافیت دے ۔ ‘‘
( اب اس خاتون نے سوچا کہ ایک طرف صبر کرنے پر آخرت میں جنت کی ضمانت ہے اور دوسری طرف