کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 295
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا جو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے تھا بیمار ہو گیا ،پھر وہ اُس وقت فوت ہو گیا جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر سے باہر تھے ۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر والوں سے کہا : جب تک میں خود ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بیٹے کی موت کے بارے میں نہ بتاؤں اُس وقت تک کوئی اور ان سے اس بارے میں بات نہ کرے ۔
پھر انھوں نے اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا ۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ شام کو گھر واپس لوٹے تو انھوں نے آتے ہی بیٹے کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسا ہے ؟ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : وہ آرام کر رہا ہے اور شاید پہلے سے زیادہ راحت میں ہے ! اس کے بعد ام سلیم رضی اللہ عنہا نے انھیں کھانا پیش کیا ، پھر زیب وزینت اختیار کی ۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے صحبت کی اور جب انھوں نے دیکھا کہ وہ سیر ہو کر فارغ ہو چکے ہیں تو انھوں نے کہا : ابو طلحہ ! تمھارا کیا خیال ہے اگر کچھ لوگ کسی کو کوئی چیز ادھار پر دیں ، پھر وہ اُس سے اس چیز کی واپسی کا مطالبہ کریں تو کیا اسے یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ اس چیز کو واپس نہ لوٹائے ؟ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں ۔ تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : تب تم اپنے بیٹے کی موت پر صبر کرو ۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ صبح کے وقت غسل کرکے گھر سے جانے لگے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے انھیں بیٹے کی موت کی اطلاع دی]
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ تم نے مجھے پہلے اطلاع نہیں دی یہاں تک کہ میں جنبی ہو گیا ۔ بعد ازاں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی اور آپ کو پورے واقعہ کی خبر دی ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّبَارِکَ لَکُمَا فِیْ لَیْلَتِکُمَا))
’’ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کی رات میں برکت دے ۔‘‘
سفیان ( راویٔ حدیث ) کہتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی نے انہیں بتایا کہ میں نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب حافظ قرآن تھے۔[1]
عزیزان گرامی ! معصوم سے لخت ِ جگر کی وفات پر یہ ہے صبر وتحمل کا اعلی نمونہ کہ اس صابرہ خاتون نے غم وافسوس کے آثار ہی اپنے اوپر طاری نہ ہونے دئیے ، بلکہ اس کے بر عکس خاوند کیلئے زیب وزینت اختیار کی اور اسے مقاربت کا موقع دیا ۔ بعد ازاں انتہائی عمدہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے اسے یہ بات سمجھائی کہ بیٹا ہمارے پاس اللہ کی امانت تھا جو اس نے واپس لے لی ہے ۔ پھر انھوں نے خود بھی صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنے خاوند کو
[1] البخاری : الجنائز باب من لم یظہر حزنہ عند المصیبۃ :1301، مسلم :2144