کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 294
کرنے کے بعد فرمایا :
(( أَمَا تُحِبُّ أَن لَّا تَأْتِیَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ إِلَّا وَجَدْتَّہُ یَنْتَظِرُکَ ))
’’ کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں کہ تم جنت کے جس دروازے پر آؤ اسے اپنا انتظار کرتے ہوئے پاؤ ؟ ‘‘
نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَا یَسُرُّکَ أَن لَّا تَأْتِیَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ إِلَّا وَجَدْتَّہُ عِنْدَہُ یَسْعٰی یَفْتَحُ لَکَ )) [1]
’’کیا تمھیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ تم جنت کے جس دروازے پر بھی آؤ اسے اپنے سامنے پاؤ اور وہ دوڑ کر تمھارے لئے اس دروازے کو کھول دے ؟ ‘‘
6۔ حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
((إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللّٰہُ لِمَلاَئِکَتِہٖ : قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِیْ ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ،فَیَقُولُ : قَبَضْتُمْ ثَمَرَۃَ فُؤَادِہٖ؟فَیَقُولُونَ:نَعَمْ،فَیَقُولُ:مَاذَا قَالَ عَبْدِیْ؟فَیَقُولُونَ:حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ، فَیَقُولُ اللّٰہُ : اِبْنُوا لِعَبْدِیْ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَسَمُّوہُ بَیْتَ الْحَمْدِ [2]))
’’ جب کسی آدمی کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندے کے بیٹے کو قبض کر لیا ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے جگرگوشے کو فوت کردیا ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : تب میرے بندے نے کیا کہا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اس نے تیرا شکر ادا کیا اور ( انا للّٰه وانا الیہ راجعون ) پڑھا ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے : تم میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام رکھ دو: شکرانے کا گھر۔ ‘‘
ان احادیث کے پیش نظر معصوم بچوں کی وفات پر ان کے والدین کو صبر ہی کرنا چاہئے اور انہیں اپنا غم اِس عظیم خوشخبری کے ساتھ ہلکا کرنا چاہئے کہ یہی بچے روزِ قیامت ان کی نجات کا سبب بنیں گے اور جنت کے ہر دروازے پر ان کا استقبال کریں گے ۔
خصوصا خواتین اسلام کو بچوں کی جدائی پر جزع فزع کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدر پر رضا مندی کا اظہار کرنا چاہئے اور انہیں اس سلسلے میں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا وہ قصہ ہر وقت اپنے ذہنوں میں رکھنا چاہئے جس میں انھوں نے صبر کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جو آج بھی ہر خاتون کیلئے قابل تقلید ہے ۔
[1] سنن النسائی:1871،2088۔ وصححہ الألبانی
[2] سنن الترمذی :1021۔ وحسنہ الألبانی