کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 291
آپ نے پیغامبر کو کہا کہ انہیں میری طرف سے سلام کہو اور آگاہ کرو کہ (( إِنَّ لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَلَہُ مَا أَعْطیٰ،وَکُلُّ شَیْیٍٔ عِنْدَہُ بِأَجَلٍ مُّسَمّٰی، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ)) ’’ اللہ تعالیٰ کیلئے ہی ہے جو کچھ اس نے لیا اور جو کچھ اس نے عطا کیا ۔ اور ہر ایک کی موت کا وقت متعین ہے ۔ لہٰذا اسے صبر کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھنی چاہئے ۔ ‘‘
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے پیغامبر کو دوبارہ بھیجا اور آپ کو قسم دے کر ضرور بالضرور آنے کی درخواست کی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور چند دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ اپنی صاحبزادی کے گھر میں پہنچے ۔
اُس بچے کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا گیا ، اُس وقت وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھا اور اِس طرح حرکت کر رہا تھا جیسے ایک پرانے مشکیزے میں حرکت ہوتی ہے۔ بچے کی یہ حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے ۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ہٰذِہٖ رَحْمَۃٌ جَعَلَہَا اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ ، وَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَائَ )) [1]
’’ یہ وہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ودیعت کردی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں ۔‘‘
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے معصوم سے بچے کی موت کے وقت صبر کرنے اور اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب طلب کرنے کی تلقین کی ۔ اور آپ کا یہ حکم ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کیلئے ہے ۔ لہٰذا تمام مسلمانوں ، خاص طور پر خواتین اسلام کو ایسے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سامنے رکھتے ہوئے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہئے اور بے صبر ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اونچی اونچی آواز سے رونے پیٹنے اور ماتم کرنے سے قطعی پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ اِس جیسے افعال کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُیُوْبَ وَدَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ [2]))
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخساروں پر طمانچے مارے ، گریبانوں کو چاک کیا اور جاہلیت کے دعوی کے ساتھ پکارا یعنی واویلا کیا اور مصیبت کے وقت ہلاکت اور موت کو پکارا ۔‘‘
[1] صحیح البخاری :1284 ، صحیح مسلم :923
[2] البخاری : 1294، مسلم :103