کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 290
ویسے ہی معاف کردیتا ہے ۔ ‘‘ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہر قسم کی مصیبت پر ‘چاہے وہ کانٹا چبھنے کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو ، صبر کرنے والے شخص کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ مٹا دیتا ہے ۔ جیسا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ ، وَلَا ہَمٍّ وَلَا حَزَنٍ،وَلَا أَذیً وَلَا غَمٍّ ، حَتَّی الشَّوْکَۃُ الَّتِیْ یُشَاکُہَا ، إِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ[1])) ’’مسلمان کو جب تھکاوٹ یا بیماری لاحق ہوتی ہے یا وہ حزن وملال اور تکلیف سے دوچار ہوتا ہے حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰٰ اس کے بدلے میں اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ ‘‘ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مَا یَزَالُ الْبَلَائُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَۃِ فِی نَفْسِہٖ وَوَلَدِہٖ وَمَالِہٖ حَتَّی یَلْقَی اللّٰہَ وَمَا عَلَیْہِ خَطِیْئَۃٌ)) [2] ’’ آزمائشیں مومن مرد اور مومنہ عورت کا پیچھا نہیں چھوڑتیں ، کبھی جان میں ، کبھی اولاد میں اور کبھی مال میں (کسی نہ کسی طرح آزمائشیں ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہیں ) یہاں تک کہ وہ جب اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا ۔ ‘‘ سو آزمائشوں اور مصیبتوں کو اپنے گناہوں کا کفارہ تصور کرتے ہوئے ان پر صبر وتحمل ہی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ پیاروں کی جدائی پر صبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش پیاروں کی جدائی کی صورت میں آتی ہے ۔ سو اس پربھی ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کو صابر ہونا چاہئے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی (حضرت زینب رضی اللہ عنہا ) نے آپ کے پاس بیغام بھیجا کہ ان کا ایک بچہ قریب المرگ ہے ۔ لہٰذا آپ ان کے گھر تشریف لائیں ۔
[1] صحیح البخاری:5641۔5642، صحیح مسلم :2573 [2] سنن الترمذی : 2399۔ وصححہ الألبانی