کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 29
اس حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا کہ وہ اپنے خاندان کیلئے تو کجا اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیلئے بھی نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے ۔ اور جن سے لوگ حصولِ نفع کی امید رکھتے اور ان کی طرف سے نقصان پہنچنے کا خوف کھاتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ قُلْ أَفَرَأَیْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ہَلْ ہُنَّ کَاشِفَاتُ ضُرِّہٖ أَوْ أَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ہَلْ ہُنَّ مُمْسِکَاتُ رَحْمَتِہِ قُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُونَ﴾[1] ’’ آپ کہہ دیجئے کہ تمھارا کیا خیال ہے جن معبودوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا وہ اللہ کی طرف سے آئے ہوئے نقصان کو دور کردیں گے ؟ یا وہ مجھے اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک لیں گے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ ہی کافی ہے ، بھروسہ کرنے والے صرف اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ خالق ومالک اور رازق کائنات ہے وہی اکیلا تمام عبادات کا مستحق اور معبود برحق ہے ، وہی غوث اعظم ہے ، وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے اور ہر قسم کے نفع ونقصان کا اختیار اسی کے پاس ہے ۔لہٰذا اسی کو پکارنا ، اسی سے دعا کرنا ، اسی سے امیدیں وابستہ کرنا اور اسی سے خوف کھانا چاہئے ۔ اسی لئے ہم میں سے ہر شخص نماز کی ہر رکعت میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ﴿ إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ﴾ یعنی ’’ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔‘‘ اور اسی لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ( إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعْن بِاللّٰہِ) ’’ تم جب بھی سوال کرنا چاہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے کیا کرو ۔اورجب بھی مدد طلب کرنا چاہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے طلب کیا کرو ۔ ‘‘[2] اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توحید کو سمجھنے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق دے۔ آمین
[1] الزمر39:38 [2] سنن الترمذی:2516 ۔ وصححہ الألبانی