کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 286
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ جب حضرت ایوب علیہ السلام ننگے بدن نہا رہے تھے توآپ پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہونے لگی ، آپ انھیں اپنے کپڑے میں اکٹھا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں پکارا : ایوب ! کیا میں نے تمھیں ان ٹڈیوں سے بے نیاز نہیں کردیا ؟ تو انھوں نے کہا : اللہ ! تیری عزت کی قسم ، یہ تو ٹھیک ہے لیکن میں تیری رحمت سے تو بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ‘‘[1] یہ یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حضرت ایوب علیہ السلام کے بے مثال صبر وتحمل کا پھل تھا۔ یہ ایک نمونہ تھا صبرِ انبیاء علیہم السلام کے نمونوں میں سے ، ورنہ تمام انبیاء علیہم السلام اسی طرح صبر واستقامت کے پیکر تھے ۔ ارشاد باری ہے : ﴿ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِیْنَ ﴾ [2] ’’ اسماعیل ( علیہ السلام ) ، ادریس ( علیہ السلام ) اور ذو الکفل ( علیہ السلام ) یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے ۔ ‘‘ اور خود امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی انتہائی صابر تھے باوجود اس کے کہ آپ کی قوم نے آپ کو شدید تکلیفیں دیں ،زبانی بھی اور جسمانی بھی ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : کیا آپ پر کوئی دن یومِ احد سے بھی زیادہ سخت آیا ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ مجھے تمھاری قوم کی طرف سے بہت اذیت پہنچی ہے اور سب سے بڑی اذیت مجھے یوم ِ عقبہ کو پہنچی جب میں نے ابن عبد یا لیل بن عبد کلال کو اسلام کی طرف دعوت دی تو اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ میں شدید غمزدہ تھا ، لہٰذا میں منہ جھکائے ہوئے واپس چل دیا ۔ اور مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں قرن الثعالب (میقاتِ اہلِ نجد) کے قریب پہنچا ۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بادل مجھ پر سایہ فگن ہے، میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس میں حضرت جبریل علیہ السلام نظر آئے ۔ انھوں نے مجھے پکارا اور کہنے لگے : ’’آپ کی قوم نے آپ سے جو کچھ کہا ہے اور آپ سے جو سلوک کیا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے اور اس نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے تاکہ آپ جو چاہیں اسے حکم صادر فرمائیں ۔‘‘ چنانچہ اس فرشتے نے مجھے پکارا اور سلام کرنے کے بعد کہا : ( یَا مُحَمَّدُ ! ذَلِکَ فِیْمَا شِئْتَ ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْہِمُ الْأَخْشَبَیْنِ ) ’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ جیسے چاہیں گے اسی طرح ہو گا ۔ اگر آپ کی منشا ہو تو میں دونوں پہاڑوں کو آپس میں
[1] صحیح البخاری :279 [2] الأنبیاء 21:85