کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 285
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وَاذْکُرْ عَبْدَنَا أَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ٭ اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ہَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ ٭ وَوَہَبْنَا لَہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِکْرَیِأُولِیْ الْأَلْبَابِ ٭ وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّہِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّہُ أَوَّابٌ﴾ [1] ’’ اور ہمارے بندے ایوب( علیہ السلام )کو یاد کیجئے جب انھوں نے اپنے رب کو پکار کر کہا : شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے ۔ ( ہم نے انھیں کہا : ) اپنا پاؤں مارو ، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کیلئے اور ہم نے انھیں ان کے اہل وعیال عطا کئے اور اپنی مہربانی سے ان کے ساتھ اتنے اور بھی دے دئیے ، یہ اہلِ دانش کیلئے نصیحت ہے ۔ اور ( ہم نے کہا : ) اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لو ، اس سے مارو اور قسم نہ توڑو ۔ ہم نے ایوب ( علیہ السلام ) کو صابر پایا ، وہ بہترین بندے تھے جو ہر وقت ( اللہ کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ ‘‘ نیز فرمایا :﴿وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ٭ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَّآتَیْْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَی لِلْعَابِدِیْنَ﴾ [2] ’’ اور ایوب ( علیہ السلام ) کو یاد کرو جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے ۔چنانچہ ہم نے انھیں ان کے اہل وعیال ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ اور بھی دے دئیے۔ یہ ہماری مہربانی تھی اور عبادت گذاروں کیلئے نصیحت ۔ ‘‘ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت ایوب علیہ السلام کی سخت تکلیف اور شدید بیماری کا ذکر کیا ہے جو آپ کیلئے بہت بڑی آزمائش بن گئی تھی ۔ چنانچہ اولاد اور بیویوں میں سے سوائے ایک بیوی کے باقی سب نے ساتھ چھوڑ دیا ، خوشحالی تنگ حالی میں تبدیل ہو گئی ، بارہ سال اس شدید ابتلا میں گذر گئے مگر پیکرِ صبر واستقامت کی زبان پر ایک مرتبہ بھی حرفِ شکایت نہ آیا ۔ دعا کرتے تو اس میں بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں ۔ بس اتنا کہتے کہ ’’ اے میرے رب ! میں بیمار ہوں اور تو ارحم الراحمین ہے ۔‘‘ اِس کڑے امتحان میں جب سیدنا حضرت ایوب علیہ السلام پوری طرح کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نوازشوں کی بارش کردی ۔ انھیں حکم ہوا کہ زمین پر پاؤں مارو، بس پاؤں مارنے کی دیر تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک چشمہ رواں کردیا ، آپ اس کے شفا بخش پانی میں غسل کرتے اور اسے پیتے رہتے ۔ جسمانی بیماری جاتی رہی اور جو آل واولاد اِس ابتلاء سے پہلے تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے دوگنی عطا فرمادی ۔
[1] ص38 : 44-41 [2] الأنبیاء21 :84-83