کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 284
ہے:﴿لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوا أَذًی کَثِیْرًا وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ﴾[1] ’’ تمھیں اپنے اموال اور اپنی جانوں میں آزمائش پیش آکر رہے گی ۔ نیز تمھیں ان لوگوں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ‘ اور مشرکین سے بھی بہت سی تکلیف دہ باتیں سننا ہو نگی ۔ اور اگر تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تو بلا شبہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے ۔ ‘‘ ان تمام آیاتِ مبارکہ اور ان جیسی دیگر کئی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ مومن کو صابر اور متحمل مزاج ہونا چاہئے ۔ اسے پریشانیوں اور آزمائشوں میں بے صبری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مکمل طور پر برداشت سے کام لینا چاہئے اور اس سلسلے میں اسے انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں کو سامنے رکھنا چاہئے جو مصائب وآلام میں صبر وتحمل کے پہاڑ بنے رہتے تھے حالانکہ ان پاکباز حضرات پر آزمائشیں بھی سب سے بڑی آتی تھیں، اس کے باوجود وہ صبر کا مظاہرہ بھی سب سے زیادہ کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( أَشَدُّ النَّاسِ بَلَائً اَلْأنْبِیَائُ،ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ، یُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلیٰ حَسَبِ دِیْنِہٖ،فَإِنْ کَانَ فِی دِیْنِہٖ صُلْبًا اِشْتَدَّ بَلَاؤُہُ،وَإِنْ کَانَ فِی دِیْنِہٖ رِقَّۃً اُبْتُلِیَ عَلیٰ قَدْرِ دِیْنِہٖ ،فَمَا یَبْرَحُ الْبَلَائُ بِالْعَبْدِ حَتّٰی یَتْرُکَہُ یَمْشِی عَلَی الْأرْضِ وَمَا عَلَیْہِ خَطِیْئَۃٌ)) [2] ’’ انبیاء علیہم السلام لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ پھر وہ جو سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہوتا ہے ۔ اور ہر شخص کو اس کی دینداری کے مطابق آزمایا جاتا ہے ۔ اگر وہ دینداری میں مضبوط ہو تو اس پر آزمائش بھی سخت آتی ہے ۔ اور اگر وہ اس میں کمزور ہو تو اس کے مطابق ہی اسے آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ۔ اور آزمائشیں بندۂ مومن کو پریشان کئے رکھتی ہیں حتی کہ وہ زمین پر اس حالت میں چلتا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو چکا ہوتا ہے ۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سب سے بڑی آزمائشیں انبیاء علیہم السلام پر آئیں جن پر انھوں نے صبر وتحمل کے وہ اعلی نمونے پیش کئے جو آج بھی ہر مومن کیلئے لائقِ اتباع اور قابلِ قدر ہیں ۔ ان نمونوں میں سے ایک عظیم الشان نمونہ حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا ہے جو انھوں نے اپنی جسمانی تکلیفوں کو برداشت کرکے پیش کیا اور جو آج بھی ضرب المثل کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
[1] آل عمران3 :186 [2] سنن الترمذی : 2398، سنن ابن ماجہ :4023۔ وحسنہ الألبانی