کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 275
’’ جب کسی آدمی کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندے کے بیٹے کو قبض کر لیا ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے جگرگوشے کو فوت کردیا ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : تب میرے بندے نے کیا کہا : وہ جواب دیتے ہیں کہ اس نے تیرا شکر ادا کیا اور ( إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون) پڑھا ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے : تم میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام رکھ دو : شکرانے کا گھر۔ ‘‘
اس حدیث میں بشارت ہے اس شخص کیلئے جو اپنے لختِ جگر کی جدائی کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور ( إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون) پڑھتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرے ۔
شکر کیا ہے ؟
شکر سے مراد احسانات اور نعمتوں کا دل اور زبان سے اعتراف کرنا اور احسان مند ہونا ہے اوراس میں احسان کرنے والے کی تعریف اور اس کی اطاعت بھی شامل ہے ۔
ابن منظور کا کہنا ہے کہ ’’شکور‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے اپنے رب کا شکر بجا لائے اور ان عبادات کو سرانجام دے جن کا اس نے اسے مکلف بنایاہے ۔[1]
اور مناوی کہتے ہیں کہ شکر دو طرح کا ہوتا ہے : ایک زبان کے ساتھ یعنی نعمتیں دینے والے کی تعریف کرنا اوردوسرا تمام اعضاء کے ساتھ یعنی نعمتوں کے بدلے میں عطا کرنے والے کی فرمانبرداری کرنا۔
اور علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اثر بندے کی زبان پر ظاہرہو کہ وہ اس کی تعریف کرے اور اس کا ثنا خواں ہو اور دل پر بھی ظاہر ہو کہ اس میں محسن حقیقی کیلئے محبت پیدا ہو۔اور اس کے تمام اعضائے بدن پر بھی ظاہر ہو کہ وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی جھکائے اور ان کے ذریعے اس کی اطاعت کرے، نافرمانی نہ کرے ۔[2]
اورعلامہ فیروز آبادی کہتے ہیں : شکر آدھا ایمان ہے اور پانچ اصولوں پر مبنی ہے :
1۔ محسن کیلئے شکر گذار کی عاجزی وانکساری 2۔ محسن سے محبت 3۔ محسن کے احسانات کا اعتراف 4۔محسن کی تعریف 5۔ محسن کی نعمتوں کو اس کی ناراضگی میں استعمال نہ کرنا ۔[3]
[1] لسان العرب:2305/4
[2] مدارج السالکین :244/2
[3] بصائر ذوی التمییز:334/3