کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 274
’’ اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ خیرات کیا کرو کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ اہلِ جہنم کی اکثریت عورتوں کی ہے۔ ‘‘ عورتوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ہے ؟ آپ نے فرمایا : (( تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ[1])) ’’ تم لعنت بہت زیادہ بھیجتی ہو اور خاوند کی نا شکری کرتی ہو ۔ ‘‘ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ میں نے جہنم میں دیکھا تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی جو ’ کفر ‘ کرتی ہیں۔ ‘‘ پوچھا گیا کہ اللہ کے ساتھ ’ کفر ‘ کرتی ہیں ؟ فرمایا : ’’ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان ناشناس ہوتی ہیں، اگر آپ ان میں سے ایک پر ساری زندگی احسان کرتے رہیں ، پھر وہ آپ سے کوئی ( نا پسندیدہ ) چیز دیکھ لے تو کہتی ہے : (( مَا رَأَیْتُ مِنْکَ خَیْرًا قَطُّ)) ’’ میں نے تو آج تک تجھ سے کوئی خیر دیکھی ہی نہیں ۔ ‘‘[2] اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَاَینْظُرُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ إِلَی امْرَأَۃٍ لَا تَشْکُرُ لِزَوْجِہَا وَہِیَ لَا تَسْتَغْنِیْ عَنْہُ [3])) ’’ اللہ تبارک وتعالیٰ اس عورت کی طرف دیکھتا ہی نہیں جو اپنے خاوند کی شکر گذار نہ ہو حالانکہ وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ ‘‘ ان تینوں احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر ایک خاتون اپنے خاوندکی ناشکری ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور اسے اپنی نظر رحمت سے محروم کرتے ہوئے اسے جہنم میں بھیج دیتا ہے۔ تو اُس شخص کا کیا حال ہو گا جو اپنے معبود حقیقی کا ناشکرا ہو اور دن رات اس کی نافرمانی کرنے پر تلا ہوا ہو ؟ تیسری حدیث : حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللّٰہُ لِمَلَائِکَتِہٖ : قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِیْ ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ،فَیَقُولُ:قَبَضْتُمْ ثَمَرَۃَ فُؤَادِہٖ ؟فَیَقُولُونَ:نَعَمْ،فَیَقُولُ:مَاذَا قَالَ عَبْدِیْ؟ فَیَقُولُونَ:حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ،فَیَقُولُ اللّٰہُ : اِبْنُوا لِعَبْدِیْ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَسَمُّوہُ بَیْتَ الْحَمْدِ )) [4]
[1] صحیح البخاری:304،صحیح مسلم :79 [2] صحیح البخاری:29 [3] صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1944،والصحیحۃ : 289 [4] سنن الترمذی :1021 ۔وحسنہ الألبانی