کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 271
قوم سبا کا علاقہ آج کل یمن کا علاقہ کہلاتا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب تہذیب وتمدن کے لحاظ سے اسی قوم کا طوطی بولتا تھا اور روم اور یونان کی تہذیبیں ان کے سامنے ہیچ تھیں ، زراعت اور تجارت کے میدان میں ان لوگوں نے خوب ترقی کی ، اس علاقہ کے دو طرف پہاڑی سلسلے تھے ، جگہ جگہ ان لوگوں نے بارش کا پانی روکنے اور ذخیرہ کرنے کیلئے بند بنا رکھے تھے اور دونوں طرف کے پہاڑوں کے دامن میں باغات کا سینکڑوں میں پھیلا ہوا سلسلہ موجود تھا اور انسان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جس جگہ وہ کھڑا ہے اس کے دونوں طرف باغات ہی باغات ہیں ۔ اس جنت نظیر علاقے میں انواع واقسام کے پھلوں کے درخت بھی تھے اور کھیتی بھی خوب پیدا ہوتی تھی، اسی کو اللہ تعالیٰ نے ﴿بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ﴾ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ۔ یعنی سرسبزی ، زرخیزی ، فضا کا ہر وقت خوشبو میں معمور رہنا ، موسم اور آب وہوا میں اعتدال ، رزق کی فراوانی اور سامانِ عیش وعشرت کی بہتات ۔۔ ۔۔یہ وہ نعمتیں تھیں جو اللہ نے عطا کر رکھی تھیں ۔ پھر جب یہ قوم اپنی خوشحالی میں ہی مست ہو کر رہ گئی اور اپنے منعم حقیقی کو یکسر بھلا دیا تو آخر ان پر اللہ کی گرفت کا وقت آگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے سیلاب کا عذاب بھیج دیا ، اوپر سے زور دار بارش برسا دی اور سارا قابلِ کاشت علاقہ زیرِ آب آ گیا ، جس سے فصلیں اور کھیتیاں سب کچھ گل سڑ کر تباہ وبرباد ہو گیا، پھر کچھ مدت بعد زمین خشک ہوئی تو اس میں کوئی چیز بھی بار آور نہ ہو سکی ، اب وہی زمین جو سونا اگلا کر تی تھی اس پر جھاڑ جھنکار ، خار دار پودے ، تھوہر کے درخت اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں از خود پیدا ہو گئیں ، لے دے کے اگر کوئی کھانے کی چیز وہاں اگی بھی تو وہ چند بیریوں کے درخت تھے جن سے وہ کسی حد تک اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکتے تھے ۔ قوم سبا کو جو سزا ملی وہ ان کی ناشکری کی وجہ سے ملی اور انہی کیلئے ہی مختص نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿وَہَلْ نُجَازِیْ إِلَّا الْکَفُورَ﴾کے مطابق جو قوم بھی اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد اپنے محسن حقیقی کو بھول جاتی ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے سرتابی کی راہ اختیار کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ اس قوم کو ایسے ہی انجام سے دوچار کرتا ہے ۔[1] سامعین گرامی ! اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کا برا انجام ذکر کرکے در اصل دوسری تمام اقوام عالم کو تنبیہ کی ہے کہ اگر وہ بھی قوم سبا کی روش اختیار کریں گی تو یقینا ان کا انجام بھی وہی ہو گا اور اگر وہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی اطاعت وفرمانبرداری کی راہ پر چلیں گی تو اللہ تعالیٰ کو کیا پڑی ہے کہ وہ خواہ مخواہ انھیں عذاب میں مبتلا کرے ! ارشاد باری ہے:﴿مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ إِن شَکَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَکَانَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیْمًا﴾ [2]
[1] تیسیر القرآن از مولانا عبد الرحمن کیلانی ؒ:625/3( کچھ تصرف کے ساتھ ) [2] النساء4 :147