کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 270
گھونٹ کر ، تڑپا تڑپا کر ہمیں مارنا چاہتے ہیں ۔کبھی سوچا ہم نے کہ ذلت وخواری کے یہ بادل ہم پر کیوں چھا گئے ؟ ہماری شان وشوکت کیوں لٹ گئی ؟ ہماری عزت ‘ ذلت میں کیوں تبدیل ہو گئی ؟
یقینا اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگذار بندے نہ بنے ، ہم نے اس کے بے شمار احسانات کو بھلا ڈالا ، اس کی لا تعداد نعمتیں استعمال کرکے ہم نے اس کے گھر کی طرف آنا گوارا نہ کیا ، اس کے گھر کو چھوڑ کر ہم نے درباروں ، مزاروں اور خانقاہوں کا رخ کر لیا ، اُس سے محبت کرنے کی بجائے ہم نے فوت شدگان سے اندھی عقیدت پیدا کر لی ، اُس سے مانگنے کی بجائے ہم نے دوسروں کے سامنے جھولی پھیلائی ، صرف اسی سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے ہم نے غیروں سے امیدیں وابستہ کر لیں ، ہم نے اس کو چھوڑ کر غیروں کو داتا ، دستگیر ، غریب نواز اور غوث اعظم جیسے القاب دے دئیے ۔۔۔ الغرض یہ کہ اس کی شکرگذاری کی راہ کو چھوڑ کر ہم نے اس کی ناشکری کی راہ کو اختیار کر لیا ، نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا خالق ومالک ہم سے ناراض ہو گیا اور اس نے جو ان گنت نعمتیں ہمیں نوازی تھیں وہ خود ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے اس نے ہم سے چھین لیں ۔ (والعیاذ باﷲ)
نا شکری کا یہی برا انجام اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر یوں بیان کرتا ہے :
﴿لَقَدْ کَانَ لِسَبَإٍ فِیْ مَسْکَنِہِمْ آیَۃٌ جَنَّتَانِ عَن یَّمِیْنٍ وَّشِمَالٍ کُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوا لَہُ بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ. فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاہُم بِجَنَّتَیْْہِمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَی أُکُلٍ خَمْطٍ وَّأَثْلٍ وَّشَیْئٍ مِّن سِدْرٍ قَلِیْلٍ. ذَلِکَ جَزَیْنَاہُم بِمَا کَفَرُوا وَہَلْ نُجَازِیْ إِلَّا الْکَفُورَ ﴾[1]
’’ قوم سباکیلئے ان کے مسکن میں ایک نشانی موجود تھی ، اس کے دائیں بائیں دو باغ تھے ، (ہم نے ان سے کہا : ) اپنے رب کا رزق کھاؤ اوراس کا شکر ادا کرو ، یہ پاکیزہ اور صاف ستھرا شہر ہے اور رب معاف کرنے والا ہے ۔ پھر انھوں نے سرتابی کی ، چنانچہ ہم نے ان پر زور کا سیلاب چھوڑ دیا اور ان کے دونوں باغوں کو ایسے باغوں میں بدل دیا جس کے میوے بد مزہ تھے اور ان میں کچھ پیلو اور جھاؤ کے درخت اور تھوڑی سی بیریاں تھیں ۔ ہم نے یہ سزا انھیں ان کی ناشکری کی وجہ سے دی تھی اور ہم ناشکروں کو ایساہی بدلہ دیتے ہیں ۔ ‘‘
قوم سبا کے مسکن میں ایک نشانی سے مراد بقول مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ ایک تاریخی شہادت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار اور شکر گذار بن کر رہتی ہے ، وہ پھلتی پھولتی اور ترقی کی منازل طے کرتی جاتی ہے۔اور جب وہ اللہ کی نافرمانی اور نا شکری کرنے لگے تو اسے بتدریج زوال آنا شروع ہو جاتا ہے اور اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلے تو اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے ، یہی حال قوم سبا کا ہوا ۔
[1] سبا34: 17-15